Advertisement

مدرسہ تعلیم القرآن بیلا، بھاؤنگر،گجرات ۔

 

مدرسہ تعلیم القرآن بیلا، بھاؤنگر،گجرات ۔


اسلامی معاشرہ کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لیے جہاں علماء کرام کی دینی جدوجہد بنیادی اہمیت رکھتی ہے، وہیں مکاتبِ دینیہ اور مدارسِ اسلامیہ کا وجود ایک عظیم نعمت ہے۔ ایسے ادارے نہ صرف علمِ دین کے فروغ کا ذریعہ ہوتے ہیں، بلکہ سیرت و کردار کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کی گود میں سینکڑوں مدارس موجود ہیں، لیکن ان میں بعض ادارے ایسے بھی ہیں جو اپنی بے سروسامانی، پسماندگی، اور خالص دینی جذبے کی بنیاد پر اپنی مثال آپ ہوتے ہیں ۔انہی مبارک اداروں میں سے ایک روشن چراغ "مدرسہ تعلیم القرآن بیلا" ہے۔ جس کا قیام ایک دینی خلا کو پُر کرنے، اور گمراہی و جہالت میں ڈوبے ہوئے علاقے کو ایمان و علم کے نور سے منور کرنے کے جذبے کے تحت عمل میں آیا۔

بیلا گاؤں کا جغرافیائی تعارف :

بیلا، ریاست گجرات کے ضلع بھاؤنگر کی حدود میں واقع ایک پُرامن اور سادہ لوح آبادی والا گاؤں ہے۔
مشرق میں تقریباً 22 کلومیٹر کے فاصلے پر مہوا شہر واقع ہے۔
مغرب کی طرف 80 کلومیٹر کے فاصلے پر امریلی شہر آباد ہے۔
شمال میں 40 کلومیٹر کی دوری پر راجولہ شہر موجود ہے۔
جنوب میں جیسر تعلقہ واقع ہے، جو 22 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
بھاؤ نگر شہر سے بیلا گاؤں کا فاصلہ تقریباً 150 کلومیٹر شمال کی سمت ہے۔
یہ گاؤں سطح سمندر سے تقریباً 65 میٹر (213 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے، جو اسے معتدل آب و ہوا عطا کرتا ہے۔

بیلا کی آبادی :

150 کے قریب مسلمان گھرانے آباد ہیں، جو زیادہ تر مزدوری، زراعت اور دیہی پیشوں سے وابستہ ہیں۔
400 کے قریب غیر مسلم افراد بھی یہاں رہائش پذیر ہیں، جن کے ساتھ بھائی چارہ، اور سماجی اشتراک پایا جاتا ہے۔
یہ گاؤں سادگی، محنت، اور روایتی گجراتی تہذیب کا خوبصورت نمونہ ہے۔

گاؤں کی حالت زار اور دینی و دنیوی تاریکی :

یہ گاؤں آج سے تقریباً 35 سال قبل زمانہ جاہلیت کی زندہ مثال تھی، یہاں کے مسلمان صرف آبائی نام و نسب کی وجہ سے مسلمان رہ گئے تھے حتیٰ کہ شعائر اسلام تک سے نا واقف اور نا بلد تھے، نہ کلمہ کا علم، نہ نماز کی پہچان، نہ جنازے کا شعور، دین سے دوری کا یہ عالم تھا کہ بغیر نماز جنازہ کے ہی مردے کو دفن کر دیا کر تے تھے اور عید الاضحٰی کی قربانی کو گناہ عظیم تصور کرتے تھے۔ اسی طرح پسماندگی کا یہ حال تھا کہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بیلا گاؤں دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ نظام زندگی کی ساری سہولیات مفقود تھیں، لوگ انتہائی سادہ اور پسماندہ زندگی گزار رہے تھے، سڑکوں کا فقدان تھا، سواری کا انتظام نہ تھا، آمد و رفت کا واحد ذریعہ صرف بیل گاڑی تھا۔
گویا کہ یہ بستی بالکل ہی نا بلد لوگوں کی آبادی سمجھی جاتی تھی جہاں پر دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے نہایت ہی پسماندگی تھی، یہاں کی مسلم قوم بدعت و خرافات اور برادران وطن کے تہواروں کو اپنا تہوار سمجھ کر منایا کرتے تھے پوری مسلم آبادی میں سے چند سنجیدہ و سمجھدار لوگ جمعہ کی نماز کے لیے بیلا سے 8 کلومیٹر دور موٹا کھٹوڑا نامی بستی میں پیدل چل کر نماز جمعہ کے لیے جایا کرتے تھے۔

تعلیمی سفر کا آغاز:

ایسے حالات میں رب کی رحمت ان سادہ لوح عوام کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور ان کی اور ان کی نسلوں کی اصلاح و تربیت کے ایک نیک دل، صوفی منش اور درد دل رکھنے والی شخصیت کا انتخاب کرتی ہے، جس کا نام نامی حاجی عبداللہ اگوان ہے، موصوف کی عمر کا طویل حصہ بدعت و خرفات کی نذر ہوا؛ لیکن ان کی نیک طبیعت نے اس کو گوارہ نہ کیا یہاں تک کہ ان کے ہاتھ محمد پالن حقانی صاحب کی کتاب "شریعت و جہالت" ہاتھ لگی۔ جس نے ان کے اندر حق و باطل کی تمیز ہی نہیں بلکہ اشاعت دین اور اصلاح قوم کا جذبہ بھی موج زن کردیا، پھر کیا تھا! دیوانے کی طرح اس کی فکر میں غرق ہوگئے، مہوا اور ویجپڈی کے احباب سے اس فکر کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں مشورے کئے ؛ تاکہ کوئی حل نکل سکے، اسی گفت و شنید میں دو سال عرصہ بیت گیا لیکن کوئی حل نہ نکل سکا، دو سال بعد دو بارہ انہوں نے اپنے احباب کو مشورہ کے لیے طلب کیا، جس میں یہ طے پایا کہ بیلا گاؤں میں ہی دینی تعلیم کا سلسلہ جاری کیا جائے۔

مدرسہ کی بنیاد اور حضرت والا سے رابطہ :

مدرسہ کے اخراجات کے لیے حاجی عبداللہ صاحب رمضان المبارک کے مہینے میں "وامنگر " نامی علاقے میں چندہ کے لئے گئے، جہاں کرشمہ قدرت نے ان کی ملاقات حافظ اسحاق صاحب وستانوی رحمہ اللہ علیہ سے کروادی، حاجی صاحب نے ان کو بیلا گاؤں کے جائزہ کے لیے مدعو کیا، جس کو حافظ صاحب نے بہ خوشی قبول فرما لیا، اور حسب وعدہ رات کی تاریکی میں ہی بیلا پہنچے اور جائزہ لینے کے بعد مشورہ دیا کہ آپ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اککل کوا جا کر مولانا غلام وستانوی سے ملاقات کیجئے، حاجی صاحب نے موقع کو غنیمت جانا اور اککل کوا جاکر حضرت سے ملاقات کی اور اپنے خیال کا اظہار کیا اور ساتھ ہی بیلا تشریف آوری کی دعوت دی، جس کو حضرت نے بہ خوشی قبول فرمایا اور رمضان المبارک کے بعد آنے کا وعدہ کیا، حسبِ وعدہ حضرت تشریف لائے اور بیل گاڑی کے ذریعے بیلا پہنچے اور بیلا گاؤں کی جمعہ مسجد میں مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔

جامعہ کی پہلی شاخ :

اس طرح 1985 میں مسجد کے دو کچے کمرے جو جھوپڑی کے بنے ہوئے تھے اشاعت العلوم کی سب سے پہلی شاخ وجود میں آئی، جس میں 25 طلبہ کا نظم کیا گیا اور خدمت کے طور پر مولانا اقبال صاحب کو مقرر کیا گیا، جو کئی سالوں تک خدمت انجام دیتے رہے۔

مدرسہ کی تعمیر و ترقی:

اللہ کے فضل سے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا جس سے جگہ کی تنگی واقع ہوئی اور دشواری پیش آنے لگی چنانچہ اس کے لیے چندے کی رقم سے ساڑھے تین ایکڑ زمین خریدی گئی، اور عارف باللہ قاری صدیق صاحب باندوی، مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی، مولانا علی یوسف کاوی جیسے پاک طینت بزرگوں کے دست با برکات سے موجودہ عمارت کی بنیاد عمل میں آئی۔ خاص طور پر پُرانا مطبخ، سامنے کی بلڈنگ کا نچلا حصہ اور مسجد کے آدھے حصے کی تعمیر کا خرچہ حاجی جمال بھائی قاسم بھائی سیلوت اٹھایا، اس طرح موجودہ مقام پر باضابطہ تعلیمی سلسلے کا آغاز ہوا، اور مولانا یعقوب صاحب کوساڑی کے زیرِ اہتمام یہ سلسلہ ترقی کرتا رہا، یہاں تک کہ طلباء کی تعداد 60 تک پہنچ گئی، مولانا موصوف نے دس سال تک اہتمام کا فریضہ انجام دیا۔ ان کے بعد مولانا عبد الرشید صاحب مد ظلہ اس کا اہتمام سنبھالا جو اب تک بہ حسن و خوبی اور بڑی عرق ریزی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ موصوف کو دارین میں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔

عصری تعلیم کا آغاز اور ترقی :

1995 میں ارباب مدرسہ نے عصری علوم کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ بڑی کوششوں کے بعد 1سے7 پرائمری اسکول کا آغاز ہوا، 2001 میں 8سے 9 ویں کلاس کا اضافہ کیا گیا جس میں جناب داؤد بھائی گھانچی کی محنت نا قابل فراموش ہے، 2004 میں دسویں کی منظوری ملی، 2008 میں گیارہویں اور بارہویں جماعت" آرٹس اور کامرس" کے ساتھ اجازت ملی، 2023 میں سائینس کی بھی اجازت مل گئی۔ فلله الحمد

موجودہ ترقی یافتہ نظام:

مولانا حنیف وستانوی صاحب کے مفید مشوروں اور رہنمائی سے یہ چھوٹا سا پودا آج تناور درخت بن گیا ہے، اور آج اس مدرسہ سے قرآن پاک کو اپنے سینے میں محفوظ کرنے والے طلباء کی تعداد 224 ہوگئی ہے۔ اور عصری علوم میں سائینس، کامرس اور آرٹس تک کی تعلیم ہے. چنانچہ 446طلباء نے SSC اور 224 طلباء نے HSC مکمل کیا ہے، جن میں سے اکثر طلبہ مختلف ڈگریاں حاصل کر کے الگ الگ فلڈ میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت مدرسہ میں:
10 اساتذہ
20 ٹیچر
5 خادم
270 طلبہ دینی شعبے میں
410 طلبہ و طالبات اسکول کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
مدرسہ دور دراز کے طلبہ و طالبات کے آمد و رفت کے لیے بس کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔

مدرسہ کی ملی و سماجی خدمات :

  • 225 اجتماعی نکاح
  • غرباء و مساکین کے لیے مالی تعاون
  • اطراف و اکناف میں قربانی کا نظام
  • مکاتب و مساجد کا قیام (25 مکاتب کی مکمل ذمہ داری مدرسہ ہذا کے ما تحت ہے)
  • بنجر علاقوں میں بورنگ کی کھدائی کا انتظام (19 بورنگ اور 3 کنوئیں)

علماء و اکابرین کی تشریف آوری :

  • عارف باللہ حضرت قاری صدیق صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ
  • مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ
  • مفتی عبداللہ ہانسوٹی رحمۃ اللہ علیہ
  • مولانا عبد الرحیم فلاحی رحمۃ اللہ علیہ
  • مولانا علی یوسف صاحب کاوی
  • مولانا قاسم صاحب
  • شیر پنجاب مولانا اقبال بھٹکلی صاحب
  • میاں رمضان صاحب خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مدنی
  • شیخ حنیف صاحب کڑوڈوی
  • قاری عبد الرشید صاحب اجمیری
  • مولانا حنیف صاحب وستانوی

مستقبل کے عزائم :

  • موجودہ دور میں بڑھتے ارتداد کے لیے لائحہ عمل
  • کالج کا قیام
  • لڑکیوں کے لیے مدرسہ کا قیام

خلاصۂ کلام:

حاجی عبداللہ اگوان، مدرس اول مولانا اقبال مدافری، سابق مہتمم مولانا یعقوب صاحب کوساڑی، مرحوم حافظ اسحاق صاحب اور ان کے لائق و فائق ارجمند مولانا حنیف صاحب وستانوی، موجودہ مہتمم مولانا عبد الرشید صاحب کوساڑی اور مدرسہ ہذا کے جملہ اساتذہ۔ یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی رات دن کی محنتوں، کاوشوں اور سرگرمیوں سے مدرسے کو گل و گلزار اور لالہ زار بنادیا اور اپنی زندگی کی عمر عزیز اور اپنے خون جگر کو کھپادیا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ آج مدرسہ کا گوشہ گوشہ تابنداں اور درخشاں ہیں، اور ان تمام کا سہرا اگر کسی شخصیت کو جاتا ہے تو وہ خادم القرآن مولانا غلام صاحب وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہیں، جنہوں نے اپنے تمام تر مصروفیات اور مشاغل کے باوجود ایسے صعوبتوں بھرے، اور گمنام علاقے کا ایک، دو نہیں، بلکہ کئیں اسفار کئے اور مدرسہ ہذا کی مکمل رہنمائی اور سر پرستی فرماتے رہے۔
فجزاہم الله عنا خير الجزاء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے