دعوت و تبلیغ کے اثرات اور افراط و تفریط کا جائزہ ۔

 دعوت و تبلیغ کے اثرات اور افراط و تفریط کا جائزہ ۔

منقول ............. 

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تبلیغِ دین کے لئے جس طریقہ کو حضرت جی مولانا الیاس صاحب کاندھلوی نےجاری کیا وہ بہت مؤثر اور بے حد مقبول ہے اور اس بندہ کے اخلاص اور آہِ نیم شبی ہی کا نتیجہ ہے کہ یہ تحریک اور یہ طریقۂ دعوت وتبلیغ ،ہزاروں تحریکوں کے درمیان نمایاں رہا،اور اب تک زندہ و تابندہ ہے،خدا ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے اس نمد پوش دوراندیش عالِم ربانی پر کہ وہ اکیلا ہی اس فکر میں چل پڑا اور خدا نے اس کی آہ وفغاں کی قدر کی اور زمانہ نے دیکھا کہ :

وہ اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر 

راہ رو آتے رہے اور کارواں بنتا گیا 

         خداوند قدوس کے اس بندۂ داعی الی اللہ نے اپنی نظرِ فراست مؤمن اور فکر فرازی میں „„وَرَأيْتَ النَّاْسَ يَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّہِ اَفْوَاْجًا ““ کی عملی تفسیر دیکھی تھی اور آج تک دیکھی جارہی ہےاور رہتی دنیا اس کا اعتراف کرے گی ۔ 

لیکن حضرتِ الیاس کو دوسری فکر اس تحریک کے صحیح نہج پر چلتے رہنے کی بھی تھی اور شاید آپ نےاللہ سے دعا کی ہوگی"فَھَبْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ وَلِیَّاْ ،یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوْبْ وَاجْعَلْہٗ رَبِّ رَضِیَّا" چنانچہ اللہ رب العزت نے حضرت جی مولانا یوسف صاحب کی شکل میں ایسا ولی دیا جس نے اس تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی،مولانا یوسف صاحب کو اپنے والد محترم کی طرف سے جو فکر ودیعت کی گئی تھی، اس فکر نے اس تحریک کو نہ صرف مُلکی بلکہ عالمی تحریک بنادیا، آپ نے اس کے اصول و قواعد قلم بند کیے، لوگوں کو اس پر گامزن کرنے کے لئے انتھک کوششیں جاری رکھیں، اور نصوص وسیر سے دلائل دے کر اس طریقہ کار کو منقح کیا، فجزاھم اللہ خیرا کثیرا ،اللہ ان حضرات کی محنتوں کو خوب خوب قبول فرمائے، آمین !

لیکن افسوس کہ اس راہِ خیر پر بھی کچھ راہزنوں نے راہزنی کی ،اور اپنی بُری نظریں ڈالی، اور اس کے مثالی منظم کردار کو داغ دار کیا، اور اس طریقہ سے راہِ راست پر آنے والے سادہ لوح عوام کو ایسی پٹیاں پڑھائی کہ وہ افراط و تفریط کے شکار ہوگئیں، اور اِسی ایک کام کو ان کے سامنے (اپنی غلط بیانی سے)ایسا پیش کیا کہ وہ سیدھے سادے لوگ اس کے علاوہ  دیگر ،تعلیم و تصوف کے کارِ خیر کو ہیچ نہیں تو کم ازکم کمتر تو سمجھنے ہی لگے ہیں ،اور اس یک طرفہ کوششوں نے ان کے دلوں کو ایسا مسحور کردیا کہ ان کی غلطیوں پر خیر خواہوں کی خیر خواہی ان کے دلوں پر نیزے کی طرح چبھنے لگی، نیز یہ سوچ اور یہ تنگ نظری افق عالَم پر اس طرح چھا گئی کہ خیر خواہوں سے دوری اور مداحوں کی مزدوری کو اپنا مذہب تسلیم کر لیا، اور محض اسی کے کارکنوں کے پاس طاق و جفت (کامیابی)ہونے کا یقین کر بیٹھے اور ان کے خلاف بات سنتے ہی طائرِ نیم بسمل کی طرح پھڑکنے لگتے ہیں، اور قائل کو اپنے دین وایمان کا راہزن و قزاق  تصور کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک پل کے لئے بھی نہیں سوچتے کہ کہنے والا کون ہے ،میں نے  ایک بڑے آدمی  سے ابن حجر عسقلانی جیسی شخصیت کے بارے میں مفاد پرست کے الفاظ سنے ہیں ، (نعوذباللہ من ذالک) کیا اِن لوگوں نے نہیں دیکھا کہ حضرتِ الیاس نے علماء کے بارے میں کیا تعلیم دی ہے، یہ لوگ کیوں اُن باتوں کو بھلا بیٹھے، کیا یہ قبر میں اپنی گردنوں کے بے رخ ہوجانے کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا اِن کا علماء کے ساتھ یہ رویہ مضر نہیں ہے؟ ـ

لیکن جب دیکھتے ہیں کہ عوام تو عوام بلکہ وہ خواص بھی اس طاعونِ مہلک میں گرفتار ہو جاتے ہیں جو 8سال 10سال تک اصحابِ علم و فن کے پاس رہ کر بلا واسطہ قرآن و حدیث سے اپنے نظریات بناتے ہیں : خدا مجھے معاف کرے میں اپنے سے بڑوں کی بات نہیں کرتا ان کے لئے دیگر اکابر علماء موجود ہے مجھے ان کے بارے میں کمینٹ کرنے کا کوئی حق نہیں ،میں صرف ان لوگوں کو کہتا ہوں ،جو میرے ہمسر ہیں، یا میں ان سے معاصر ہونے کی حیثیت سے اس بارے میں بات کرسکتا ہوں ،میں انہیں سے کہنا چاہوں گا کہ آپ کیوں افراط و تفریط کے شکار ہورہے ہیں ،آپ کیوں ایک ہی راستہ کےہوکر رہ جاتے ہوں ، ذرا سوچیں کہ آپ انبیاء کرام اور خصوصاً جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں ،اور تمہارے مورث کا ترکہ تو "یُعَلِّمُھُمْ الْکِتَاْبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ" ہے ،پھر آپ کیسے کسی ایک ہی راہ کی تخصیص کرسکتے ہیں، اور تخصیص کریں تو دیگر کو کلی طور پر چھوڑ کیسے سکتے ہیں ،میرے خیال سے یہ تفریق آپ علماء کو زیب نہیں دیتی۔

 لیکن دیکھا یہ ہے کہ جنہیں مقتدٰی بننا تھا وہ مقتدیوں کی اقتداء کرنے لگے ، جنہیں امت کو غلطیوں سے نکال کر صحیح راہ دکھانا تھا ،وہ اپنی ہی راہ میں ڈگمگا گئے  ،راہ اعتدال دکھانے والے خود افراط و تفریط کے شکار ہوگئے، مجھے بتائیں کہ کیا یہ "اندھیر نگری اور چوپٹ راجہ" والا حال نہیں ہے  کہ کوئی حقیقت دیکھ نہیں سکتا اور جو دیکھ سکتا ہے وہ کسی وجہ سے بولتا نہیں ،کہ یا تو بدنامی کا ڈر ہے یا انتشار کا بہانہ ، اور شاید یہی خاموشی وجہ بنی ہے کہ اس بارے میں بولنا " کلمة حق عند سلطان جائر " کا ماحول بنا چکا ہے

اور اب اس بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا 

تنقید اور تنقیص!!

اس راہ میں تنقید و تغلیط کا ایسا بازار کھلا ہے کہ آج تک بند نہیں ہوا  جسے دیکھو وہ تنقید کے فن کا ماہر اور شناسا معلوم ہوتا ہے ، اپنی زبان کھولنے سے پہلے شاید ایک بار بھی نہیں سوچتا کہ ہم جس پر تنقید کر رہے ہیں وہ کس درجے کا ہے،فرق مراتب گویا ان کی نظر میں کچھ حیثیت کی حامل ہی نہیں ، پھر تنقید بھی ایسی کی جاتی ہے کہ بلا مبالغہ اس میں سامنے والے کی تجہیل وتنقیص ہوتی ہے، تنقید تو غلط کام پر تنبیہ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ان کی تنقید تو عالم بلکہ علامہ کو بھی جاہلیت سے دوچار کردیتی ہے،اللہ ایسی تنقید سے پناہ میں رکھے آمین ۔

اور جو لوگ سچی تنقید کرتے ہیں توکبھی کبھی وہ لوگ اس طرح غلو کرجاتے ہیں کہ پھر وہ ہر چیز کو غلط سمجھتے ہیں، اور بلا تأمل ٹوک دیتے ہیں ،جبکہ یہ کام بہت ہی حکمت عملی سے کرنے کا ہوتا ہے، لیکن ان پر حق بولنے کا بھوت ایسا چڑھتا ہے کہ"ادعو الی سبیل ربک بالحکمةوالموعظةالحسنہ "سے نصیحت لینا بھول جاتے ،حق بولئے لیکن حکمت کے ساتھ ،اس طرح کہ سامنے والا آپ کو مخالف نہ سمجھے  

نگاہ بلند ،سخن دلنواز ،جاں پرسوز 

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے 

آخری بات!! 

آخر میں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ یہ عالَم تنقیدی ہے ،آپ لاکھ خود کو بچائیے مگر اِدھر سے نہیں تو اُدھر سے کوئی نہ کوئی آپ کے خلاف رہے گا، پوری دنیا آپ کے ہم خیال ہوجائے  "ایں خیال است ومحال است و جنوں"۔

 اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم ہمہ گیر بن جائے ،یا پھر کم از کم ہم اپنا ذہن تو وسیع رکھے ،کسی ایک ہی میدان کو سب کچھ سمجھ لینا یہ محض کم علمی،اور کم فہمی کی بات ہے جو عالمی عالم کو زیب نہیں دیتا،آپ کسی ایک میدان میں محنت کرتے ہیں تو بھی مبارک ،لیکن اس کی وجہ سے دوسرے میدانوں اور ان کے کارکنانوں پر بگڑئیے گا نہیں، بلکہ ان کا بھی احترام ہم پر لازم ہے ،اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین ـ

ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں،  میرا تو ایسے کئی لوگوں سے سابقہ پڑا ہے ،ممکن ہے آپ کو بھی یہ دیکھنے کا موقع ملا ہوگا ، کہ 12,10 سال میں جسے قرآن و سنت سے نکال کر صحیح نظریات دئے گئے،اور اتنی بڑی مدت میں جسے اعتدال سکھایا گیا، وہی عالم کچھ وقت الگ رہتا ہے اور اسی کا دلدادہ ہو جاتا ہے ،جس کا اثر یہ ہوتا ہےکہ اپنی پہلے کی محنتوں کو ہیچ قرار دیتا ہے، اور علم و عمل کی ساری بنیاد اسی تھوڑے سے وقت کو بناتا ہے، یاد رکھو! آپ کے اس طرح کے الفاظ کہ "سال لگائے بغیر کچھ نہیں ہوتا" ،، یہ خود کو ناواقف گرداننے پر دال ہے ،نیز اس جملہ کے پس پشت گویا آپ کو ان اساتذہ کی محنتوں پر شک ہے ،گویا ان کا علم ناقص ہے انہوں نے آپ سے کتمانِ علم کیا جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے، ایسی باتیں محض ان پر بہتان ہے جس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں 

اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری صلاحیتوں کے حساب سے ہر میدان میں ہم سے کام لے، اور ہم کو ہر میدان میں اخلاص سے محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے