مدرسہ تعلیم القرآن بیلا کا مختصر خاکہ
اسلامی معاشرہ کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لیے جہاں علماء کرام کی دینی جدوجہد بنیادی اہمیت رکھتی ہے، وہیں مکاتبِ دینیہ اور مدارسِ اسلامیہ کا وجود ایک عظیم نعمت ہے۔ ایسے ادارے نہ صرف علمِ دین کے فروغ کا ذریعہ ہوتے ہیں، بلکہ سیرت و کردار کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انہی مبارک اداروں میں سے ایک روشن چراغ "مدرسہ تعلیم القرآن بیلا" ہے، جس کا قیام ایک دینی خلا کو پُر کرنے اور گمراہی و جہالت میں ڈوبے علاقے کو ایمان و علم کے نور سے منور کرنے کے جذبے کے تحت عمل میں آیا۔
بیلا گاؤں کا جغرافیائی تعارف:
- بیلا، ضلع بھاؤنگر (گجرات) میں واقع ایک پُرامن گاؤں ہے۔
- مشرق: مہوا شہر (22 کلومیٹر)
- مغرب: امریلی شہر (80 کلومیٹر)
- شمال: راجولہ شہر (40 کلومیٹر)
- جنوب: جیسر تعلقہ (22 کلومیٹر)
- بھاؤنگر شہر سے فاصلہ: تقریباً 150 کلومیٹر
- سطح سمندر سے بلندی: 65 میٹر (213 فٹ)
بیلا کی آبادی:
- 150 کے قریب مسلمان گھرانے (زیادہ تر مزدوری اور زراعت پیشہ)
- 400 غیر مسلم افراد، باہمی بھائی چارے کے ساتھ
گاؤں کی حالت زار اور دینی تاریکی:
35 سال قبل یہ گاؤں جہالت کی تصویر تھا۔ مسلمان دین سے ناواقف، شعائر اسلام سے بے خبر، حتیٰ کہ نماز جنازہ اور قربانی جیسے بنیادی احکام سے بھی لاعلم تھے۔ سڑکوں، آمد و رفت، اور بنیادی سہولیات کا فقدان تھا۔ لوگ بیل گاڑی پر سفر کرتے اور جمعہ کی نماز کے لیے 8 کلومیٹر پیدل چل کر موٹا کھٹوڑا جایا کرتے تھے۔
تعلیمی سفر کا آغاز:
ان حالات میں حاجی عبداللہ اگوان نے اصلاحِ قوم کا بیڑا اٹھایا۔ "شریعت و جہالت" کتاب نے ان میں دینی بیداری پیدا کی۔ انہوں نے مہوا اور ویجپڈی کے احباب سے مشورے کیے اور بالآخر بیلا گاؤں میں دینی تعلیم کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔
مدرسہ کی بنیاد:
1985 میں حافظ اسحاق وستانوی رحمہ اللہ کی رہنمائی اور حضرت مولانا غلام وستانوی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں مسجد کے دو کچے کمروں میں مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔ پہلے مہتمم مولانا اقبال مدافری مقرر ہوئے اور 25 طلباء سے تعلیمی سفر شروع ہوا۔
مدرسہ کی تعمیر و ترقی:
طلباء کی تعداد بڑھنے پر ساڑھے تین ایکڑ زمین خریدی گئی۔ مختلف بزرگوں کی دعا اور قربانیوں سے نئی عمارت قائم ہوئی۔ بعد ازاں مولانا یعقوب صاحب کوساڑی نے دس سال خدمت کی، جس کے بعد مولانا عبد الرشید صاحب مد ظلہ نے مہتمم کی ذمہ داری سنبھالی۔
عصری تعلیم کا آغاز:
- 1995: پرائمری (1 تا 7)
- 2001: آٹھویں تا نویں
- 2004: دسویں کی منظوری
- 2008: گیارہویں اور بارہویں (آرٹس و کامرس)
- 2023: سائنس کی منظوری
موجودہ نظام:
- 224 حفاظ کرام
- 446 طلباء SSC مکمل کر چکے
- 224 طلباء HSC مکمل کر چکے
- 10 اساتذہ دینی تعلیم
- 20 اسکول ٹیچرز
- 5 خدام
- 270 طلبہ دینی تعلیم میں
- 410 طلباء اسکول میں
- بس کی سہولت برائے طلبہ
ملی و سماجی خدمات:
- 225 اجتماعی نکاح
- غرباء کی مالی مدد
- اطراف میں قربانی کا نظام
- 25 مکاتب کا انتظام
- 19 بورنگ اور 3 کنویں
اکابر علماء کی آمد:
مدرسہ میں اکابر علماء کی آمد نے ادارے کو جلا بخشی۔ ان میں حضرت قاری صدیق باندویؒ، مولانا عبد اللہ کاپودرویؒ، مفتی عبداللہ ہانسوٹیؒ، مولانا حنیف وستانوی مدظلہ اور دیگر اکابر شامل ہیں۔
مستقبل کے عزائم:
- ارتداد کے خلاف عملی لائحہ عمل
- کالج کا قیام
- لڑکیوں کے لیے مدرسہ
خلاصۂ کلام:
حاجی عبداللہ اگوان، مولانا اقبال مدافری، مولانا یعقوب کوساڑی، حافظ اسحاق وستانویؒ، مولانا حنیف وستانوی اور مولانا عبد الرشید کوساڑی سمیت جملہ اساتذہ نے اپنی محنتوں سے اس گمنام گاؤں میں علم کا چراغ روشن کیا۔ فجزاہم الله عنا خير الجزاء
0 تبصرے