ماہ ذی الحجہ اہمیت و فضیلت کی روشنی میں


           ✍️ _______________امان الله معینی 

بسم الله الرحمن الرحیم 

”ماہِ ذو الحجہ “ اسلامی سال کاسب سے آخری مہینہ ہے، جو ماہ رمضان کے بعد عظمت وفضیلت میں اپنی نمایاں شان اور منفرد شناخت رکھتا ہے، اس مہینے کا چاند نظر آتے ہی ہرمسلمان کے دل و دماغ میں عظیم باپ، بیٹے کی عظیم الشان، انوکھی اور نرالی قربانی کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ، جو قربانیاں جلیل القدر پیغمبر، ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ اور ان کے خانوادے نے پیش کیں، ان کی مثال تاریخ عالم میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ 

ذو الحجۃ کی وجہ تسمیہ :

حج جیسی عظیم عبادت چونکہ اسی ماہ میں انجام دی جاتی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ذوالحجہ ہے یعنی حج والا مہینہ۔

ماہِ ذی الحجہ کی اہمیت و فضیلت :

 اس ماہ مبارک کی کئی خصوصیات و فضائل ہیں،ذی الحجہ کا یہ مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کو اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت ہی سے محترم بنایا ہے۔ عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت کاسبب بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری شرح بخاری میں لکھا ہے "تمام دلائل سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت اور خصوصیت کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمام بڑی اور اصل عبادتیں اس کے اندر یکجا ہیں جیسے نماز، روزہ، صدقہ و خیرات اور حج، جبکہ کسی بھی موقع سے یہ ساری عبادتیں اکھٹی نہیں ہوتیں" ۔

الغرض! ہرقسم کی عبادت کا ان دنوں میں اکٹھا ہوجانا یہ وہ شرف واعزاز ہے جو ان دس دنوں کے ساتھ مخصوص ہے، اس اعزاز میں اس کا کوئی اور شریک و سہیم نہیں، مزید یہ کہ اسی ماہ کے مبارک دن" یوم عرفہ" کو اللہ تعالی نے اپنے دین کی تکمیل فرمائی ہے ۔

ذو الحجۃ کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قربانی اور حج ادا کیا جاتا، اس مہینہ میں حجاج کرام دنیا کے مختلف ممالک اور علاقے  سے حج بیت اللہ کی ادائیگی کی خاطر دیوانہ وار مکۃ المکرمہ میں جمع ہوتے ہیں۔

         حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں کہ’’ذی الحجہ کے مہینے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک عجیب خصوصیت اور فضیلت بخشی ہے ؛بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فضیلت کا یہ سلسلہ رمضان المبارک سے شروع ہورہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عبادتوں کے درمیان عجیب و غریب ترتیب رکھی ہے کہ سب سے پہلے رمضان آیا اور اس میں روزے فرض فرمادیے، پھر رمضان المبارک ختم ہونے پر فوراً اگلے دن سے حج کی عبادت کی تمہید شروع ہوگئی ؛اس لیے کہ حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا: حج کے تین مہینے ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ۔ اگرچہ حج کے مخصوص ارکان تو ذی الحجہ ہی میں ادا ہوتے ہیں ؛ لیکن حج کے لیے احرام باندھنا شوال سے جائز اور مستحب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص حج کو جانا چاہے تواس کے لیے شوال کی پہلی تاریخ سے حج کا احرام باندھ کر نکلنا جائز ہے، اس تاریخ سے پہلے حج کا احرام باندھنا جائز نہیں۔ پہلے زمانے میں حج پر جانے کے لیے کافی وقت لگتا تھا اور بعض اوقات دو، دو، تین تین مہینے وہاں پہنچنے میں لگ جاتے تھے۔ اس لیے شوال کامہینہ آتے ہی لوگ سفر کی تیاری شروع کردیتے تھے۔ گویا کہ روزے کی عبادت ختم ہوتے ہی حج کی عبادت شروع ہوگئی اور حج کی عبادت ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں انجام پاتی ہے اس لیے کہ حج کا سب سے بڑا رکن جو ’’وقوفِ عرفہ‘‘ ہے ۹؍ذی الحجہ کو انجام پاجاتا ہے۔ ان دس ایام کی اس سے بڑی اور کیا فضیلت ہوگی کہ وہ عبادتیں جو سال بھر کے دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتیں، ان کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی زمانے کو منتخب فرمایا ہے۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو اِن ایام کے علاوہ دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتی۔ دوسری عبادتوں کا یہ حال ہے کہ انسان فرائض کے علاوہ جب چاہے نفلی عبادت کرسکتاہے۔ مثلاً نماز پانچ وقت کی فرض ہے؛ لیکن ان کے علاوہ جب چاہے نفلی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ رمضان میں روزہ فرض ہے ؛لیکن نفلی روزہ جب چاہیں رکھیں۔ زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ فرض ہے ؛لیکن نفلی صدقہ جب چاہے ادا کریں۔ ان سے ہٹ کر دو عبادتیں ایسی ہیں کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے وقت مقرر فرمادیا ہے۔ ان اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا تو وہ عبادت ہی نہیں شمار ہوگی۔ ان میں سے ایک عبادت حج ہے، حج کے ارکان مثلاً عرفات میں جاکر ٹھہرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، جمرات کی رمی کرنا وغیرہ یہ وہ اعمال ہیں کہ اگر انہی ایام میں انجام دیے جائیں تو عبادت ہے اور ان کے علاوہ دوسرے دنوں میں اگر کوئی شخص عرفات میں دس دن ٹھہرے تو یہ کوئی عبادت نہیں، سال کے بارہ مہینے منیٰ میں کھڑے رہناکوئی عبادت نہیں، اسی طرح سال کے دوسرے ایام میں کوئی شخص جاکرجمرات پر کنکریاں ماردے تویہ کوئی عبادت نہیں۔ غرض حج جیسی اہم عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو مقرر فرمادیا کہ اگر بیت اللہ کا حج ان ایام میں انجام دوگے تو عبادت ہوگی اور اس پر ثواب ملے گا ورنہ نہیں۔ دوسری عبادت قربانی ہے، قربانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کے تین دن یعنی دس گیارہ اور بارہ تاریخ مقرر فرمادی ہے۔ ان ایام کے علاوہ اگر کوئی شخص قربانی کی عبادت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر کوئی شخص صدقہ کرنا چاہے تو بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرسکتاہے ؛مگر یہ قربانی کی عبادت ان تین دنوں کے سوا کسی اور دن میں انجام نہیں پاسکتی؛ لہٰذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس زمانے کو یہ امتیاز بخشا ہے۔ اسی وجہ سے علماء کرام نے احادیث کی روشنی میں یہ لکھا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے ایام ذی الحجہ کے ابتدائی ایام ہیں، ان میں عبادتوں کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان ایام میں اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرماتے ہیں ‘‘۔

خصوصیاتِ عشرہ ٔ ذی الحجہ: 

اطاعت وفرمانبردارى كا موسم یعنی ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس یوم وہ ہیں جنہیں اللہ تعالى نے باقى سب ایام پر فضیلت بخشی ہے:

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "الحج أشهر معلومات" 

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس آیت میں مقررہ دنوں (أیام المعلومات) سے مراد ذی الحجۃ کے شروع کے دس دن ہیں۔(تفسیر ابن کثیر: 3/239)


اللہ تعالی کا فرمان ہے: والفجر وليال عشر

قسم ہے فجر کے وقت کی ،اور دس راتوں کی۔ (سورۃ الفجر: 1،2)

جمہور مفسرین اور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اس سے مراد عشرہ ذو الحجہ ہے، بلکہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا، اور کہا ہے کہ: "اس سے مراد عشرہ ذو الحجہ کی دس راتیں ہیں، کیونکہ تمام معتمد مفسرین کا اس پر اجماع ہے"۔(تفسیر ابن جریر : 7/514)

امام ابن کثیررحمہ اللہ کہتے ہیں:دس راتوں سے مراد عشرہ ذوالحجہ ہے، جیسے کہ ابن عباس، ابن زبیر، مجاہد، اور متعدد سلَف اور خلَف علمائے کرام سے منقول ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: 4/535)

◾ابن عباس رضی اللہ تعالى عنہما بیان كرتے ہیں كہ رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کوسب سے زیادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد بھی نہیں !! تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورجھاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ، لیکن وہ شخص جواپنا مال اورجان لے کر نکلے اورکچھ بھی واپس نہ لائے "۔( ابو داود : 2438)

اسی طرح ایک دوسرى حدیث میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالى عنہ بیان كرتے ہیں رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" عشرہ ذی الحجہ میں کیے گئے عمل سے زیادہ پاکیزہ اورزیادہ اجروالا عمل کوئی نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ نہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورنہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا "۔(سنن دارمی: 1 / 357 ) ۔

قرآن وسنت کے نصوص اس پردلالت کرتے ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے سب ایام سے بہتر اورافضل ہیں اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئی استثناء نہیں حتی کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نہیں ، لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے بہتر اورافضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہے ، اورلیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ، تواس طرح سب دلائل میں جمع ہوتا ہے ۔( تفسیر ابن کثیر : 5 / 412 )

🔵عشرہ ذی الحجۃ میں انجام دیے جانے والے اعمال صالحہ:

1۔ عشرہ ٔ ذی الحجہ کے روزے :

    رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: سال بھر کے تمام دنوں میں کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے۔ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھرکے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کی نوافل شب ِ قدر کی نوافل کے برابر ہے۔ ( ترمذی:حدیث نمبر؛688)

اسی طرح نوے ذی الحجہ یعنی عرفہ کے دن کے روزے کی خاص فضیلت احادیث میں بیان کی گئی۔ ارشاد ہے :سئل عن صوم عرفۃ ؟فقال ل یکفر السنۃ الماضیۃ والباقیۃ۔ 

رسول اللہ ﷺ سے عرفہ ( یعنی نوی ذی الحجہ ) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ ( کے صغیرہ گناہوں ) کا کفارہ کردیتا ہے۔ (مسلم:حدیث نمبر؛1984)

یوم عرفہ کے دن کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالی عرفہ ( نوی ذی الحجہ )کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اور اللہ تعالی (عرفہ کے دن )بندوں کے سب سے قریب ہوتے ہیں، پھر فخر کے طور پر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ بندے کیا چاہتے ہیں ؟۔ ( مسلم:حدیث نمبر؛2410)

بہرحال عشرہ ٔ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی خاص فضیلت نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی اور بالخصوص نوی ذی الحجہ یعنی عر فہ کے دن کا روزہ رکھنا بہت ہی موجب اجر و ثواب ہوگا۔ عشرہ ٔ ذی الحجہ میں روزے نو ذی الحجہ ہی تک رکھے جاسکتے ہیں باقی دس کو عید ہوتی ہے جس میں روزہ رکھنا جائز نہیں، اسی طرح عید الاضحی کے بعد 11، 12، 13 ذی الحجہ جو ایام ِ تشریق کہلاتے ہیں اس میں بھی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ سال میں کل پانچ دن ایسے ہیں جس میں روزہ رکھنے سے منع کیا گیا۔ 1۔ عید الفطر۔ 2۔ عید الاضحی۔ 3۔ تین دن ایام تشریق کے ( یعنی گیارہ، بارہ، تیرہ)( سنن الدار قطنی:حدیث نمبر2121)

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس ایام میں بکثرت اعمال صالحہ کےکرنے پرابھارا ہے اور روزہ رکھنا اعمال صالحہ میں نہایت افضل، اوراعلی عمل ہے ، اوراللہ تعالی نے روزہ اپنے لیے چنا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:ابن آدم کے سارے کے سارے اعمال اس کے اپنے لیے ہیں لیکن روزہ نہیں کیونکہ وہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجروثواب دونگا ۔ ( صحیح بخاری : 1805 )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نو ذوالحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، ہنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے بیان کیا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو ذوالحجہ اوریوم عاشوراء اورہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے ، مہینہ کے پہلے سوموار اوردو جمعراتوں کے ۔(سنن نسائی : 4 / 205 ، صحیح ابوداود : 2 / 462 )

2) تکبیر ِ تشریق:

     عشرہ ٔ ذی الحجہ میں تکبیر وتہلیل اور تسبیح کے ورد رکھنے کی تلقین فرمائی گئی، اور بطور ِ خاص ایام ِ تشریق میں تکبیرا تِ تشریق کے پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ 

ان دس ایام میں مساجد ، راستوں اورگھروں اورہر جگہ جہاں اللہ تعالی کا ذکر کرنا جائز ہے وہیں اونچی آواز سے تکبیریں اورلاالہ الااللہ ، اورالحمدللہ کہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالی کی عبادت کا اظہار اوراللہ تعالی کی تعظیم کا اعلان ہو ۔ مرد تواونچی آواز سے کہیں گے لیکن عورتیں پست آواز میں ہی کہیں ۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالى عنہما بیان كرتے ہیں كہ نبى كریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظیم كوئى دن نہیں اور ان دس ایام میں كئے جانے والے اعمال سے زیادہ كوئی عمل محبوب نہیں، لھذا لاالہ الا اللہ، اور سبحان اللہ ، اور تكبیریں كثرت سے پڑھا كرو" ۔ ( مسند احمد ( 7/ 224)

  ◽عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منی کے دنوں میں مسجد، اور خیمہ ہر جگہ بلند آواز سے تکبیرات کہتے، حتی کہ پورا منی تکبیروں سے گونج اٹھتا۔

تکبیر ِ تشریق نوی ذی الحجہ کی فجر سے تیر ہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے، باجماعت نماز پڑھنے والے اور تنہا نماز پڑھنے والے اس میں برابر ہیں، اسی طرح مرد و عورت دونوں پر واجب ہے، البتہ عورت بلند آواز سے نہ کہے، تکبیر تشریق صرف ایک دفعہ پڑھنا احادیث سے ثابت ہے، اس لیے صرف ایک مرتبہ پڑھنا چاہیے، علامہ شامی نے ایک سے زائد پڑھنے کو خلاف ِ سنت قرار دیا۔ ( جواہر ِ شریعت :1/274)

تکبیرات تشریق یہ ہیں :

اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، واللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وللَّهِ الحمدُ(مصنف ابن ابی شیبہ: 2/165-168)

 ◾جس شخص کی اما م کے ساتھ رکعتیں رہ گئیں ہوں اسے اپنی باقی ماندہ نماز کو پوری کرکے سلام پھیر نے کے بعد تکبیر ِ تشریق پڑھنی چا ہیے۔ 

◾فرض نماز کا سلام پھیرنے کے فوری بعد یہ تکبیر پڑھنی چاہیے۔

 ◾اگر امام یہ تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ خود تکبیر کہہ دیں امام کے تکبیر کہنے کا انتظار نہ کریں۔

 ◾تکبیر ِ تشریق صرف فرض نماز کے بعد پڑھنے کا حکم ہے، سنت اور نفل کے بعد نہیں۔

 ◾احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ عید الاضحی کی نماز  کے بعد بھی تکبیر ِ تشریق پڑھیں۔ 

  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے کہ وہ عرفہ کے دن [9 ذوالحجہ]کی نماز فجر سے لیکر 13 ذوالحجہ کی عصر تک پانچوں نمازوں کے بعد تکبیرات کہتے تھے۔

 مسند احمد میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نیک عمل کسی دن میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنا محبوب اور معظم نہیں جتنا ان دس دنوں میں محبوب اور معظم ہے ، چنانچہ ان دنوں میں کثرت کیساتھ "لا الہ الا اللہ"، "اللہ اکبر"اور "الحمد للہ" کہا کرو۔(مسند احمد: 9/14)

ابن عمر اور ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہما کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ دونوں ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے اورلوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے ۔

3۔ حج وعمرہ کی ادائیگی:

ان دس دنوں میں جوسب سے افضل اوراعلی عمل ہے وہ بیت اللہ کاحج وعمرہ کرنا ہے ، لہذا جسے بھی اللہ تعالی اسے اپنے گھرکا حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس نے مطلوبہ طریقہ سے حج کے اعمال ادا کیے توان شاء اللہ اسے بھی اس کا حصہ ملے گا جونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے: حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئی اجروثواب نہیں ۔(صحیح بخاری: 1773)

 حج کے بنیادی اور اصل ارکان 8 ذو الحجۃ سے 13 ذو الحجۃ کے درمیان انجام پاتے ہیں،8 ذو الحجۃ کو یوم الترویہ، 9 ذو الحجۃ کو عرفہ کا دن ہوتا ہے 10 سے 13 تک عید الاضحیٰ (عید قرباں)اور 9 ذو الحجۃ سے لے کر 13 ذو الحجۃ تک تکبیر تشریق کے دن رہتے ہیں۔

4۔ قربانی:

      عید الاضحی کا دن مسلمانوں کے لیے بہت ہی اہمیت و فضیلت اور عظیم تاریخ کا حامل دن ہے، جو جانثاری، فرماں برداری اور اطاعت گزاری کا درس دیتا ہے،اضحی قربانی کو کہتے ہیں؛ کیوں کہ اس عید کے روزجانوروں کی قربانی دی جاتی ہے اس لیے اس کو عید الاضحی کہا جاتا ہے۔ 

قربانی دراصل عظیم باپ بیٹے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی یاد گار ہے، باپ نے حکم ربی پاکر اپنے اکلوتے لختِ جگر، نور نظرکو راہ خدا میں قربان کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی پوری کوشش بھی کردی، اور بیٹا بھی باپ کے حکم اور فیصلہ کے آگے سر جھکا دیا اور بے چوں و چرا اپنے آپ کو قربان ہونے کے لیے پیش کردیا۔ اللہ تعالی کو باپ بیٹے کی یہ نرالی اطاعت اور فرماں بردای اتنی پسند آئی کہ قیامت تک آنے والے ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ اس اطاعت کا عملی نمونہ جانور کی قربانی دے کر پیش کریں۔

 صحابہ نے نبی کریم ﷺ نے پوچھا تھا کہ یہ قربانی کیاہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:ھی سنة ابیکم ابراھیم۔ کہ یہ  تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم کی یادگارہے۔ ( ابن ماجہ :حدیث نمبر؛3126)

جن کو اللہ نے وسعت اور گنجائش دی اور وہ صاحب ِ نصاب ہیں تو ان کو اپنی جانب سے قربانی دینا ضروری ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :من کا ن لہ سعة، ولم یضح فلا یقربن مصلانا۔ کہ جو آدمی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گا ہ کو نہ آئے۔ ( ابن ماجہ:حدیث نمبر؛3122)

اور ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :کہ عید والے دن قربانی کے عمل سے زیادہ کوئی عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں اوراس جانور کو قیامت کے دن سینگوں، کھروں، اور بالوں کے ساتھ لایا جائے گا( یعنی تولہ جائے گا)اور اللہ اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے پہلے قربانی قبول فرمالیتے ہیں، لہذا خوش دلی سے قربانی دیا کرو۔ (ترمذی:حدیث نمبر؛1409)

عید الاضحی کی رات:

    عید کا دن جہاں خوشی ومسر ت کا دن ہوتا ہے وہیں عید کی رات انعام و اکرام اور نوازشات الہی کی رات ہوتی ہے، چاہے وہ عید الفطر کی رات ہو یا عید الاضحی کی رات دونوں نہایت ہی اہمیت والی راتیں ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ جس شخص نے عید کے دن کی راتوں میں اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی خاطر قیام کیا تو اس کا د ل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ ( ابن ماجہ:حدیث نمبر؛1772)


عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا بھی شامل ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے: "فصل لربك و انحر" پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر(سورۃ الکوثر :2)

ایام عید الاضحیٰ میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بهيمة الأنعام میں سے کوئی جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے ( بهيمة الأنعام بھیڑ بکرے اونٹ گائے کوکہتے ہیں)،

انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ وسفید مینڈھوں کی قربانی دی انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور( ذبح کرتے ہوئے ) بسم اللہ اللہ اکبر کہا اوراپنا پاؤں ان کی گردن پررکھا ۔ ( صحیح بخاری : 5558 ، صحیح مسلم : 1966 ) ۔

عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف میں دس برس قیام کیا اورہر برس قربانی کیا کرتے تھے ) ۔ (مسند احمد : 4935 ،سنن ترمذی : 1507 ، حسن) ۔

اس فضیلت کا تقاضا ہے کہ ہم ان مبارک دنوں میں اطاعت الہی اور رضاء الہی کی خوب کوشش کریں اور مذکورہ اعمال کو بہ شوق و رغبت اور بہ حسن و خوبی بجا لا ئیں؛ تاکہ ہمیں بھی ابو الأنبياء، سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند ارجمند سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی طرح بارگاہ الہی میں سرخ روئی اور کامیابی حاصل ہو ۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے