ماڈرن ’دین ابراہیمی‘ – دین الٰہی کا نیا ایڈیشن
تعارف
اس مضمون میں ڈاکٹر محمد اعظم ندوی نے ’’دین ابراہیمی‘‘ کے تصور کو گہرائی سے پرکھتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ منصوبہ محض مذہبی مکالمہ نہیں بلکہ ایک عالمی سیاسی حکمت عملی ہے۔
- اس کی جڑیں اوسلو معاہدے سے جڑتی ہیں۔
- ’’ابراہیمی فیملی ہاؤس‘‘ جیسی عملی مثالیں سامنے آ رہی ہیں۔
- مغربی طاقتیں ’’روحانی سفارت کاری‘‘ اور بین المذاہب مکالمے کے نام پر امت مسلمہ کی فکری اساس کو کمزور کر رہی ہیں۔
یہ مضمون امت مسلمہ کو فکری بیداری کا پیغام دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہم حضرت ابراہیمؑ کے خالص دین پر ہیں، نہ کہ کسی نئے ’’ابراہیمی مرکب‘‘ پر۔
خلاصہ
’’دین ابراہیمی‘‘ کا تصور بظاہر امن، رواداری اور انسانی اخوت کی پکار ہے، مگر در حقیقت یہ ایک سیاسی اور تہذیبی منصوبہ ہے جس کا مقصد اسلام کی مرکزیت کو کمزور کر کے اسے دیگر مذاہب کے ساتھ ایک ’’ثقافتی ماڈل‘‘ میں ضم کرنا ہے۔
اوسلو معاہدے سے لے کر ابراہیمی معاہدوں تک، ’’ابراہیمی فیملی ہاؤس‘‘ سے مشترکہ عبادات تک، سب کچھ ایک طویل المیعاد سازش کا حصہ ہے جس کے ذریعے امت مسلمہ کی فکری شناخت مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مغل بادشاہ اکبر نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام پر ایسا ہی تجربہ کیا، مگر مجدد الف ثانیؒ کی جدوجہد نے اس فتنے کو ختم کیا۔ آج ایک بار پھر اسی طرز پر اسلام کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے، جس کا مقابلہ فکری بیداری اور دین کی اصل تعلیمات پر مضبوطی سے قائم رہنے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مکمل مضمون
دنیا کے ’’تہذیبی‘‘ افق پر ایک نئی اصطلاح ابھری ہے: ’’الديانۃ الإبراهيميۃ‘‘ Abrahamic religion، بہ ظاہر یہ ایک لطیف سا دعوتی و مکالماتی تصور ہے، جو امن، رواداری، اور انسانی اخوت کے بلندبانگ نعروں کے ساتھ سامنے آیا ہے؛ مگر اس کی تہہ میں جھانکیں تو ہمیں ایک گہری سیاسی چال، مذہبی استشراق، اور تہذیبی تسلط کی سرنگیں دکھائی دیتی ہیں۔
یہ کوئی نیا دین نہیں، بلکہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت دین اسلام کی تشکیل جدید ہے۔ یہ اقوام کی وحدت نہیں، اَدیان کی وحدت کا وسیلہ ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس کا مقصد عقائد میں اسلام کی مرکزیت، نبوتِ محمدی ﷺ پر ختم نبوت کی قطعیت، اور امت مسلمہ کی فکری خودمختاری کو تحلیل کر دینا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز اوسلو معاہدہ سے ہی ہوگیا تھا، لیکن ابھی تازہ ابراہیمی معاہدوں Abraham Accords میں ٹرمپ نے عرب اسرائیل تعلقات کی نوعیت سے متعلق جو شقیں رکھی ہیں، ان سے اس تحریک میں تیز رفتاری نظر آرہی ہے۔ در اصل ان کوششوں سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام تینوں بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے جد امجد ہیں ہی، تو کیوں نہ ہم اختلافات کو مٹاکر جنگ و جدل میں وقت برباد کرنے سے بہتر ایک ہوجائیں۔
سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر مصری نژاد پروفیسر عصام عبد الشافی کا کہنا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے یہ منصوبے ایک مربوط اور طویل المیعاد سازش کا حصہ ہیں، جن کی بنیاد 1993 میں اوسلو معاہدے کے بعد رکھی گئی۔ اس وقت کے اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے ’’نیا مشرق وسطیٰ‘‘ کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا، اور The New Middle East کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی۔
یہ منصوبہ بیس سے زائد مختلف اصطلاحات کے ساتھ آج عالمی سیاسی قوتوں، اداروں، جامعات اور تحقیقاتی مراکز کے ذریعے فروغ دیا جا رہا ہے۔ پروفیسر عبد الشافی کے مطابق ’’المسار الإبراهیمي‘‘ Abraham Path یا دیگر مشابہہ اصطلاحات گزشتہ پانچ برسوں یا 2020 کے ابراہام معاہدوں کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئیں، بلکہ یہ ایک طویل المدت منصوبہ ہے جس پر دس سال پہلے سے علمی و تحقیقی سطح پر کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ 2013 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ’’مسار ابراہیم‘‘ کے عنوان سے ایک اہم دستاویز سامنے آئی، اور 2015 میں فلوریڈا یونیورسٹی نے ایک سرکاری رپورٹ جاری کی جس میں ’’وفاق ابراہیمی‘‘ Abrahamic Federal Union کا تصور پیش کیا گیا۔ اسی طرح 2013 میں امریکی وزارت خارجہ میں ایک خصوصی شعبہ قائم کیا گیا جس کا نام تھا ’’اسٹریٹیجک ڈائیلاگ برائے سول سوسائٹی‘‘، اور اُس وقت وزارت خارجہ کی سربراہی ہیلری کلنٹن کے ہاتھ میں تھی۔
غور کیا جائے تو ’’میسا‘‘ MESA اتحاد کی غرض وغایت بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ اس کو جب امریکہ نے ’’عرب نیٹو‘‘ کے طور پر متعارف کرایا، تو اس کی ظاہری توجیہ یہ کی گئی کہ ایران کے جوہری خطرے سے خلیجِ عربی کا تحفظ کرنا مقصود ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل، جو عرب سرزمین کو اب تک ’’خلیجِ فارس‘‘ کہہ کر پکارنے سے باز نہیں آتا، واقعی اس خطے کا محافظ بن سکتا ہے؟ کیا وہ جس کی بنیاد ہی فلسطینیوں کی جڑوں کو کاٹ کر رکھنا ہے، امن و سلامتی کا پیامبر بن سکتا ہے؟
یہ اتحاد دراصل اسرائیل کو خطے کی سیکورٹی اسٹرکچر میں باقاعدہ داخل کرنے کی ایک چال ہے؛ تاکہ عرب اقوام کو نہ صرف دفاع کے میدان میں اس پر انحصار کرنا پڑے بلکہ فکری طور پر بھی اسے تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یاد ہوگا کہ کورونا وبا کے دوران امارات میں ’’صلاۃ الأخوۃ الإنسانیۃ‘‘ یا ’’الصلاۃ من أجل الإنسانیۃ‘‘ کی خبر سامنے آئی، جس میں شیخ ازہر اور واٹیکن کے پوپ جمع ہوئے، اپنے اپنے قبلے کی جانب پہلو بہ پہلو نماز ادا کی گئی اور ایک ساتھ کورونا وبا کے خاتمے کی دعائیں مانگی گئیں۔ یہ 2020 کی بات ہے۔ اس سے قبل 2010 میں عراق میں ایک کلیسا پر ہوئے حملے کے تناظر میں قیام امن کے لیے ’’الحوار الشعائري‘‘ کا عنوان اختیار کیا گیا کہ زبانی مذاکرات سے بہتر ہے شعائر ادیان کی مشترکہ پریکٹس کی جائے، اس طرح مسلمان اور عیسائی ایک ساتھ نماز ادا کرکے تمام کتب مقدسہ کی برکتیں حاصل کریں۔
کیا اس قسم کے ڈرامے محض روحانی جذبے سے ہیں؟ نہیں، یہ وہ سیاسی پروگرام ہیں جن کے ذریعے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان عقائد کے فرق کو مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے، تاکہ اسلام کا انضمام ہوجائے اور اس کا توحیدی امتیاز باقی نہ رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام، قرآن کے مطابق، ’’حنیف مسلم‘‘ تھے، نہ وہ یہودی تھے، نہ عیسائی، نہ کسی ’’تیسرے دین‘‘ کے نمائندہ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’ابراہیم نہ یہودی تھے نہ عیسائی؛ بلکہ شرک سے بیزار اللہ کے فرمانبردار تھے، اور مشرکوں میں سے نہیں تھے‘‘ (آل عمران: 67)
یہ آیت محض ایک تاریخی اعلان نہیں، بلکہ ایک عقائدی سرحد ہے، جو اسلام کو دیگر ادیان سے الگ اور منفرد بناتی ہے۔ ’’ابراہیمی دین‘‘ کے نام پر جو مذہبی معجون مرکب پیش کیا جا رہا ہے، اور عرب ممالک اس کے آلۂ کار اور مخلص و وفادار بنتے جارہے ہیں، وہ قرآن کی تصریحات کی صریح خلاف ورزی ہے۔
آج مذہب کو سافٹ پاور کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’’روحانی سفارت کاری‘‘ Spiritual Diplomacy، مذہبی قیادت، تصوف، اور رواداری جیسی اصطلاحات کو استعمال کر کے مسلم معاشروں کو نظریاتی طور پر نرم کرنے، ان سے توحید کی حساسیت کو چھین لینے کی نامحمود کوشش، اور ابلیس کی مجلس شوری کی تجویز ہے:
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خوابمیں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
اسلامی نصوص کی نئی قراءت، مشترکہ عبادت گاہیں، بین المذاہب ہاؤسز اور مختلف مذاہب کے نوجوانوں کو مشترکہ رہائش فراہم کرنے جیسے منصوبے بظاہر رواداری کے مظہر ہیں، مگر حقیقت میں یہ ’’تطبیع‘‘ normalization کی پالیسی کا حصہ ہیں، جن کا مقصد اسرائیل کو مذہبی سطح پر بھی قبول کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ابوظہبی کا ’’ابراہیمی فیملی ہاؤس‘‘ Abrahamic Family House اس پورے منصوبے کا عملی مجسمہ ہے۔ یہ ایک ایسا مرکز ہے جہاں مسجد، چرچ، اور یہودی معبد ایک ہی احاطے میں قائم کیے گئے ہیں، گویا عبادت گاہ نہیں، مذہب کا ’’افیون‘‘ اتارنے کا نشہ مکتی کیندر ہو۔
یہ مراکز نہ صرف دینی شعور کی تشکیل کر رہے ہیں، بلکہ تعلیمی اداروں، میڈیا اور ثقافتی پالیسیوں کے ذریعے نئی نسل کو ایک ایسے بیانیے سے روشناس کرا رہے ہیں جس میں اسلام کو ایک محدود حقیقت، اور دین کو ایک ثقافتی ماڈل کے طور پر سمجھا جائے۔
حضرت ابراہیمؑ کی جائے پیدائش ’’اُر‘‘ Ur کو مقدس مقام قرار دینا، بیت المقدس میں معبد سوم اور ’’جبل ہیکل‘‘ کی بازگشت جس سے مراد قبۃ الصخرہ یا مسجد اقصی ہی ہے، اور ’’صلاۃ الأخوۃ‘‘ کی آڑ میں مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے لیے عبادت کی جگہ ماننا، یہ سب اسلام کے مقدسات پر نظریاتی قبضے کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔
یہ ’’ابراہیمی دین‘‘ دراصل وہی صدی کی ڈیل یا ’’صفقۃ القرن‘‘ 2020 Trump Israel–Palestine plan کا مذہبی چہرہ ہے، جس کے ذریعے فلسطینی کاز کو تاریخی تنازعے کی جگہ ایک ثقافتی غلط فہمی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
فوکویاما نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ میں یہ دعویٰ کیا کہ سرد جنگ کے بعد دنیا نظریاتی کشمکش سے آزاد ہو چکی ہے اور اب انسانیت سرمایہ دارانہ جمہوریت پر متفق ہو چکی ہے؛ لہٰذا کوئی متبادل نظام اب ابھرنے والا نہیں۔ لیکن ان کے استاد ہنٹنگٹن نے اس تصور کو چیلنج کرتے ہوئے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا نظریہ پیش کیا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ دنیا اگرچہ ترقی کی جانب بڑھ رہی ہے، مگر تہذیبی، مذہبی اور ثقافتی شناختیں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ کسی بڑے عالمی تصادم کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہیں؛ کیونکہ انسان اپنی تہذیب کو صرف جدیدیت کی قیمت پر نہیں چھوڑتا، اور مغربی غلبے کو ہر قوم خاموشی سے قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔
جب کہ معروف امریکی ماہر سیاسیات، بین الاقوامی امور کے محقق، اور ’’ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل اسٹڈیز‘‘ کے سابق صدر جیمس روزینو کے مطابق، دنیا کا مستقبل عالمی امن پر مبنی ہوگا جو ’’ابراہیمی دین‘‘ اور عقائد کے باہمی انضمام کے ذریعے حاصل کیا جائے گا؛ وہ اسے بین الاقوامی تعلقات میں تنازعات کے حل کا ایک نیا فریم ورک قرار دیتے ہیں، جس کی بنیاد رواداری، انسانی اخوت، محبت اور ہم آہنگی جیسے روحانی تصورات پر ہوگی۔
اس صورت حال کو سامنے رکھیں اور دین الہی کو یاد کریں جس کو مغل تاجدار جلال الدین اکبر نے ہندوستان جیسے کثیر المذاہب معاشرے میں اتحاد، ہم آہنگی اور شاہی اقتدار کو مستحکم بنانے کے دعووں پر قائم کیا تھا۔
اس نئے مذہب میں اسلام، ہندو مت، مسیحیت، زرتشت اور سکھ مت جیسے مذاہب کے بظاہر ’’خالص اور عمدہ اصولوں‘‘ کو یکجا کر کے ایک ایسی اخلاقی و روحانی ساخت تشکیل دی گئی تھی جو کسی خاص وحی یا شریعت پر مبنی نہیں تھی، بلکہ ایک انسان ساختہ ’’تہذیبی ترکیب‘‘ تھی، جس میں سب کچھ تھا سوائے اُس ربانی صداقت کے جو نبوت و وحی کی اساس پر استوار ہو۔
اکبر نے اس تحریک کو فروغ دینے کے لیے فتح پور سیکری میں ’’عبادت خانہ‘‘ قائم کیا، جہاں مختلف مذاہب کے علما کو اکٹھا کر کے مکالمے اور مباحثے کا ماحول بنایا گیا۔ رفتہ رفتہ اہل حق بالخصوص مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ کی کوششوں سے اس کا خاتمہ ہوا اور ایک ایسا دور بھی آیا جب اسی مغل امپائر میں اورنگ زیب جیسے خدا ترس بادشاہ سریر آرائے سلطنت ہوئے، اور کھل کر اپنے پردادا اکبر کے بارے میں کہا: ’’جد ما اکفر بود‘‘۔
یہ وقت محض تماشائی بننے کا نہیں، بلکہ فکری مزاحمت، دینی بیداری، اور تہذیبی خودی کو پھر سے جگانے کا ہے۔ ہمیں صاف اور بے خوف لہجے میں کہنا ہوگا کہ ہم حضرت ابراہیمؑ کے دین پر ہیں، مگر وہ دین کوئی ابراہیمی مرکب نہیں، صرف اسلام ہے۔
نہ ہم توحید کے خالص مفہوم کو کسی بین المذاہب معجون میں گم ہونے دیں گے، نہ اپنی شریعت کو عالمی مفاہمت کے نام پر گروی رکھیں گے۔ جو امن و سلامتی کا پیغام عدل و صداقت، اور وحی و رسالت کے احترام پر قائم ہو، ہم اس کے محافظ ہیں، لیکن جو ’’دین ابراہیمی‘‘ کے نام پر صہیونی استعمار کا نیا چہرہ ہے، ہم اس کے منکر اور مزاحم ہیں۔ ہمارا شافی و کافی اللہ ہے، اور ساقی رسول اللہ ہیں:
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہوبزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
0 تبصرے