Advertisement

معمولی صدقہ نے کس طرح لاچار کو فرش سے عرش تک پہنچا دیا

کیا آپ یقین کریں گے؟
افریقہ میں اسلام کی دعوت پھیلانے والے عظیم عرب داعی شیخ عبدالرحمن السمیط کہتے ہیں: میرے افریقہ میں دعوتی کام کے دوران ایک دن میں وہاں چلڈرن ہسپتال کے وزٹ پر تھا کہ میں نے ایک افریقی عورت کی درد بھری آہ و بکا سنی 
یہ عورت ایک بچوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے سامنےکھڑی گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنی افریقی زبان میں بار بار کوئی التجا کر رہی تھی اور اس کیلئے اُسے رو رو کے واسطے دے رہی تھی'میں اُس کے اصرار کی شدت اور اپنے مقصد کو منوانے کے عزم سے واقعی متاثر ہوا اور میں نے آگے بڑھ کر مترجم کے ذریعے ڈاکٹر سے دریافت کیا کہ جناب اس عورت کے ساتھ معاملہ کیا ھے؟ اُس نے بتایا کہ: اس عورت کا دودھ پیتا لاغر سا بیمار بیٹا ھے جسے ہم ناقابلِ علاج قرار دے چکے ہیں مگر یہ عورت نہیں سمجھ رہی اور چاہتی ھے کہ میں اس کے بیٹے کو بھی اُن بچوں میں شامل کرلوں جنہیں علاج کی غرض سے ایڈمٹ کرلیا گیا ھے حالانکہ اس طرح جو رقم ہم اس کےقریب المرگ بیٹے پر خرچ کریں گے وہ ضائع ہی جائے گی اور اُس کا علاج کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔۔کیونکہ اس کا بیٹا گنتی کے چند ایام ہی جیئے گا سو یہ پیسے اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں کسی اور بچے پر خرچ کیا جائےکہ جس کا علاج ممکن ہو'
 شیخ السمیط کہتے ہیں:ڈاکٹر کے ساتھمیرے اس مکالمے کے دوران وہ عورت میری طرف بڑی امید بھری اور رحم طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی جبکہ ڈاکٹر میرے مترجم کے ذریعے اس کے بیٹے کی بابت مجھے بڑی ہی سخت مایوس کن رپورٹ دے رہا تھا'آخر میں نے کچھ سوچتے ہوئے مترجم سے کہا:ڈاکٹر سے پوچھو کہ اسے اس بچے کو داخل کر لینےکی صورت میں اسکے علاج معالجےکیلئے یومیہ کس قدر اضافی رقم درکار ہوگی؟جب اُس نے رقم بتائی تو میں نے اسے بہت ہی معمولی پایا'اتنی کہ جتنی ہم اپنے ملک میں ایک دفعہ سافٹ ڈرنک پی کرخرچ کر دیتے ہیں سو میں نے کہا:کوئی مسئلہ نہیں'آپ اس بچے کو بھی داخل کرلیں اور اسے بچانے کیکوشش کریں اور اس کے علاج پر جتنی اضافی رقم خرچ ہوگی وہ میں اپنی طرف سے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں سے ادا کر دیتا ہوں اور یوں ڈاکٹر نے میری سفارش پر اور بچے کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھا لئے جانے پر مطمئن ہوکر اس قریب المرگ بچے کو بھی داخل کرنے اور اس کا علاج کرنے کی حامی بھر لیادھر بچے کی ماں یہ ماجرا دیکھ سن کر فرط مسرت سے میرے ہاتھ چومنے کیلئے آگے بڑھی'جسے میں نے منع کر دیا اور پھر چیک بک نکالتے ہوئےاس عورت سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کے سال بھر کے علاج کیلئے یہ رقم لےلے'اور اگر پیسوں کی کچھ کمی ہوئی تو وہ رقم بھی تمہیں یہ شخص دے دے گااور یہبات میں نے اپنے ایک مقامی افریقی معاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہی' اور اس کے ساتھ ہی اس عورت کو ایک چیک سائن کرکے دے دیا تاکہ وہ مطلوبہ رقم وصول کر سکے۔۔حقیقت یہ ھےکہ ڈاکٹر کی باتیں سن کر میں نے بھی اُس عورت کے بچےکو میت' ڈیڈ باڈی' ہی سمجھ لیا تھا مگر مذکورہ رقم تو محض اس کی ماں کو تسلی دینے کیلئے دی تھی اور اس لئے بھی تاکہ وہ قبول اسلام کیلئے اپنے کیے گئے وعدے پر قائم رہے اور وہ اس تالیف قلبی کے سبب اسلام پر پختہ ہو جائے۔۔اس واقعے کے بعد مہینے اور سال گزرتے گئے اور افریقہ میں دعوتی مصروفیات کے سبب میں یہ معمولی سا واقعہ یکسر طور پربھول چکا تھا'لیکن اس واقعے کے تقریباً 12 سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ کے بعد ایک دن جب میں اپنے افریقی دعوتی مرکز میں بیٹھا تھاکہ میرا ایک ماتحت آیا اور بولا کہ ایک افریقی عورت آپ سے ملنے پراصرار کر رہی ھے اس کے ساتھ ایک دس بارہ سال کا لڑکا بھی ھے اور ہمارے اُسے ٹالنے کے باوجود وہ بار بار پھر آجاتی ھے میں نے کہا:اُسے بھیج دو' تبھی ایک عورت اندر داخل ہوئی جسے میں پہچانتا نہ تھا اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت اور مطمئن چہرے والا لڑکا تھا وہ عورت آتے ہی کہنے لگی: یہ میرا بیٹا عبدالرحمن ھے اور یہ پورا قرآن حفظ کرچکا ھے اوراسے بہت سی احادیث ﷺبھی زبانییاد ہیں اور میں یہ چاہتی ہوں کہ یہ آپ کے ساتھ رہ کر آپ ہی کی طرح کا داعی اسلام بن جائے'میں خاموش بیٹھا تھا اور وہ عورت بار بار اپنی بات دہرائے جارہی تھی۔۔میں اُس کے اصرار پر حیران ہوا اور مترجم کے ذریعے اس سے پوچھا کہ تم اپنی اس درخواست پر مجھ سے اتنا اصرار کیوں کر رہی ہو؟میرے یہ پوچھنے پر ماں کے بجائے لڑکا مترجم کے بغیر براہ راست عربی میں جواب دینے لگا' تو میں بڑا حیران ہوا کہ یہ بچہ افریقی زبان کے بجائے بڑے اطمینان سے عربی بول رہا ھے وہ مجھے کہنے لگا:شیخ!اگر اسلام اور اس کی رحمتیں نہ ہوتیں تو میں آج زندہ نہ ہوتا اور نہ ہی آج آپ کے سامنےکھڑا یوں باتیں کر رہا ہوتا۔۔میری ماں نے آپ کے ساتھ بیتا سارا قصہ مجھے سنا رکھا ھے'اس نے بتایا ھے کہ
‏میری صغرسنی میں جب ڈاکٹر لاعلاج قرار دے کر مجھے ہسپتال سے نکال رھے تھے تو میری ماں کے رونے دھونے پر رحم کھا کر کس طرح آپ نے میرے علاج معالجے کے خرچ کی زمہ داری اٹھا کرمجھے ہسپتال میں داخل کروا دیا تھا اور میں نے اپنی اسی مہربان ماں کی شدید خواہش پر بڑی محبت سے قران پاک حفظ کیا ھے اور ابتدائی طور پر اسلام کو سیکھا ھے اور ابھی میں اپنی ماں کا حکم مان کر بڑے شوق سے آپ کے تحت رہ کر اسلام کی بابت بہت کچھ سیکھنا چاہتا ہوں اور اسلام کیلئےبہت کچھ کرنا بھی چاہتا ہوں'میں عربی اور افریقی دونوں زبانیں یکساں جانتا ہوں اور میں آپ کے ماتحت رہ کر آپ کی طرح اسلام کے داعی کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں اور اس کام کے عوض مجھے کھانے کے علاؤہ کچھ بھی نہیں چاہیئے ہوگا۔۔اور شیخ! اس موقع پر مجھے اور میری ماں کو اچھا لگے گا اگر آپ میری قرآن کی تلاوت بھی سن لیں' میں نے مسکراتے ہوئے اُسے تلاوت کرنے کیلئے کہا تو۔۔اُس نے بڑی ہی سریلی آواز میں ترتیل کے ساتھ سورة البقره کی آیات پڑھنا شروع کر دیں اور اس دوران اُس کی خوبصورت ذہین آنکھیں مجھے مسلسل اُمید کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔۔اور اس دوران میری یادداشت میں ایکدم وہ بھولا بسرا ہوا واقعہ روشن ہونے لگا کہ جس کا ذکر یہ بچہ اپنی تلاوت سے پہلے کر رہا تھا'سب کچھ یاد آجانے پر میں نے فرط حیرت و مسرت سے کہا:کیا یہ وہی بچہ ھے جسے ڈاکٹروں نے ناقابلِ علاج قرار دے دیا تھا؟ ماں نے کہا:ہاں ہاں۔۔یہ وہی بچہ ھے جسے انہوں نے سمجھلیا تھا کہ یہ زندہ نہیں بچے گا'پھر وہ بولی:یہی بتانے کیلئے تو میں اسے ساتھ لے کر آپ کے پاس آنے کے لئے اصرار کر رہی تھی اور میں نے اس کا نام بھی آپ کے نام پر عبدالرحمن رکھا ھے_ شیخ السمیط کہتے ہیں:
حقیقت حال معلوم ہونے پر مجھ پر خوشی سے کپکپاہٹ طاری ہونے لگی اورمجھے لگا کہ میرے قدم میرا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہو رھے ہیں سو میں ایکدم فرش پر بیٹھ گیا'میں خوشی اور حیرت سے کسی مفلوج آدمی جیسا ہو چکا تھا' میں نے وہیں پہ الله کے حضور سجدہ شکر ادا کیا اور پھر میں روتے ہوئے گویا اپنے رب سے کہہ رہا تھا:صرف سوفٹ ڈرنک جتنا خرچ ایکجان بچا سکتا ھے اور اس سے بڑھ کر الحمدلله ہمیں ایک داعی بھی عطا کر سکتا ھے کہ جس کی ہمیں اس وسیع میدان میں شدید ضرورت بھی ھے۔۔ اور ساتھ ہی میری زبان پر بے ساختہ سورة المائدہ کی آیت جاری ہوگئی:
ومن أحياها فكانما أحيا الناس جميعاً.
(سورةالمائدة_ آية:32)
ترجمہ: "اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی
 اُس نے گویا ساری نوع انسانی کو بچالیا".
 اور الحمدلله بعد میں یہی لڑکا غیر مسلم افریقی قبائل میں اسلام کی دعوت پھیلانے والا سب سے مشہور داعی بنا۔۔جسے اپنی زبان کی تاثیر کے سبب لوگوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی_بسا اوقات بعض معمولی سے صدقات بیشمار لوگوں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں اور اُنہیں سعادت مند بنا دیتے ہیں اور دوسری طرف کتنے ہی کثیر اموال ہم بغیر کسی مقصد اور ہدف کے فضول خرچ کر دیتے ہیں جو کہ خود ہمارے لئے اور اُمت کے لئے بھی وبال بن جاتے ہیں.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے