✍️______________امان الله معینی
لفظ قربانی ایسا میٹھا، شیریں اور دل نواز و روح افزا لفظ ہے جس کا رشتہ انسان کے ساتھ لازم ملزوم کا سا ہے ؛ کیوں کہ انسانی زندگی کا تصور اس کے بغیر نا قص و نا مکمل اور ادھورا ہے ، انسان کو اپنی زندگی کے متعدد مرحلوں میں مختلف شکل و صورت میں اس کی ضرورت پڑتی رہتی ہے، قدم قدم پر انسان قربانی سے دو چار ہوتا ہے، کہیں جان کی قربانی تو کہیں مال و متاع کی، کہیں وقت بے بہا کی تو کہیں جذبات و احساسات کی؛ اور ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور کار فرما ہوتا ہے اور مقصد جتنا عظیم ہو قربانی بھی اتنی ہی عظیم اور بے مثال ہوتی ہے ۔
قربانی کیا ہے؟؟؟
قربانی نام ہے کسی کی قربت اور چاہت پر اپنی چاہت و خواہش کو لُٹا دینے کا۔
قربانی نام ہے مقصد کے حصول میں جسمانی راحت و آرام تَج دینے کا۔
قربانی نام ہے مقصد کی دھن میں دیوانہ وار سوئے منزل آبلہ پائی و جادہ پیمائی کرتے رہنے کا۔
قربانی نام ہے عقیدت و محبت میں مال و متاع تو کیا؟ جاں تک نثار و نچھاور کردینے کا ۔
یہی قربانی جب کسی با سعادت اور بلند اقبال کو اپنا رفیق بناتی ہے تو اس کو تختۂ فقیری سے تختِ سکندری تک، باجِ مظلومانہ سے تاجِ شاہانہ تک اور فرش سے اٹھاکر عرش کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے ۔
یہی قربانی جب کسی قائد کو اپنا مسحور کرتی ہے تو اس کے سامنے خاردار اور پر خطر وادیاں، کوہ کی بلندیاں ، صحرا کی ویرانیاں ، موج تند جولانیاں، آندھیوں کا طوفان سب ہیچ ہو جاتا ہے، وہ جواں مردی، جاں نثاری، جفاکشی و او لو العزمی کا لباس زیب تن کر کے ایک عالم کا فاتح اور دلوں کا سلطان بن جاتا ہے۔
یہی قربانی اگر کسی مرید کو مستِ عقل و خرد کردے تو وہ اپنے پیر و مرشد کی ہر ادا اور ہر اشارے پر جان نچھاور کرنے کو تیار رہتا ہے ۔
یہی قربانی اگر کسی شاگرد کو اپنے دامن گرہ گیر کا شکار بنالے تو وہ استاد کے ہر منشا کو حکم واجبی سمجھ کر عمل کرنے کو بے تاب ہوجاتا ہے ۔
یہی قربانی اگر ایک چھوٹے سے دانہ اور بیچ کی طرف سے ہو تو چند ماہ میں دانہ جھومتا، لہلہاتا، باد صبا سے اٹھکھیلیاں کرتا زمین کا سخت سینہ چیر کر نکلتا ہے اور بالیوں کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور ننھا سا بیج کچھ ہی عرصے میں ہوا سے کھیلتا اور آسمان سے سر گوشی کرتا تناور و بلندوبالا درخت نظر آتا ہے۔
یہی قربانی ہے جس نے فرہاد کو شیریں کا دیوانہ اور قیس کو لیلی کا مجنوں بنا دیا ۔
قربانی کا حقیقی تصور :
جب عقیدت و محبت کا لبریز پیمانہ چھلک پڑے ، قلب و جگر میں جاں نثاری اور فدائیت و فنائیت کی موج طغیانی پر آجائے، جسم کا رواں رواں فنا ہونے کو بے قرار و بے چین ہو جائے، نہ نگاہ بصیرت میں محبوب کے سوا کسی اور کی تصویر ہو، نہ دل بے کراں میں اس کے سوا کسی اور کی گنجائش، نہ ہی تصورخانے میں کسی اور کے خیال کی گزر کا امکان باقی رہے نہ ہی خوابوں میں اس کے سوا کسی اور کی تصویر کا دھندلا سا عکس دکھائی دے ؛تب جا کر لفظ "قربانی" کا حقیقی تصور رونما ہو تا ہے ۔
لیکن اگر یہی قربانی خود کسی کی غلامی اور چاکری کرے، خود کسی کے حضور جبین نیاز خم کرنے کو باعثِ افتخار سمجھے؛ تاکہ اس کی دربانی اسے شہرت کے بام عروج پر پہنچا دے تو اسے ابو الانبیاء، خلیل اللہ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کہتے ہیں ۔
ہاں دوستو! قربانی کا دوسرا نام ابراہیم خلیل اللّٰہ ہے۔
وہ ابراہیم جو جفاکشی، جاں نثاری، دل سوزی، فرماں برداری، اولوالعزمی، حسن ادا، حسن سیرت، حسن اخلاق اور انسانیت و مروت کا حسین پیکر ہے۔
وہ ابراہیم جو جود و سخا کا ابلتا چشمہ، رحمت الہی کا پر جوش مظہر، ملل ثلثہ کا منبع، وفا شعار، فرماں بردار، شکر گزار، بت شکن، باطل شکن، شیطان کا دشمن، خدا کا دوست، بانی کعبہ کی ذات با برکات ہے ۔
وہ ابراہیم جس کے بغیر نہ انبیاء کی تاریخ مکمّل ہوسکتی ہے اور نہ ہی انسانیت کی ۔
وہ ابراہیم جس کی ادائے دلبرانہ، نوائے عاشقانہ، کردار مستانہ، اسوہ حسنہ اور ہر گوشۂ زندگی تاریخی یاد گار اور شعائر اسلام کا روپ دھار گیا ۔
ایسی قربانی پیش کی کہ خود خالقِ کائنات نے اعلان کردیا " و إذ ابتلى إبراهيم ربه فأتمهن"
سن شعور سے لے کر تعمیر کعبہ تک ایک سے بڑھ کر ایک قربانی دیتے گئے، کبھی تو نار نمرود میں بے خطر کود پڑے تو کبھی جلا وطنی میں در بہ در کی خاک چھانتے رہے ۔ کبھی اپنے جگر پارے کو اپنی بیوی کے ہمراہ سنسان، چٹیل، ویران، مکہ کی لق و دق وادی میں چھوڑ نے جا رہے ہیں تو کبھی بارگاہ الٰہی میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے اپنے نور نظر، لختِ جگر کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے عشق کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔
ابراہیم خلیل اللہ نے فدائیت و للہیت، استقامت و ثبات قدمی، ابتلا و آزمائش، جفاکشی و جواں مردی سے لبریز، دل سوز، سبق آموز اور ناقابل فراموش داستان جو پیش کی ہے، کسی اور عاشق میں دور دور تک اس کا تصور تک ممکن نہیں۔
وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ (وہ ابراہیم جس نے پورا کر دکھایا) (٣٧: ٥٣)
صدیاں بیت گئیں لیکن آج بھی ان کی قربانی کی نقل کی جا رہی ہے، جان کا نذرانہ پیش کیا جا رہا ہے، نمرود مٹ گیا، اس کا تخت و تاج بھی نہ رہا اور نہ اس کے آثار و نقوش باقی رہے، لیکن ابراہیم تب بھی زندہ تھے آج بھی زندہ ہیں ، ان کی دعوت، ان کا پیغام، ان کی فکر، ان کا اسوہ اور ان کی قربانی سب باقی ہیں بلکہ ان کا نقش پا بھی ہماری آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخش رہا ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کی حقیقت کو سمجھیں اور پورے خلوص کے ساتھ رب کے حضور نذرانہ پیش کریں؛ تاکہ کل کو ہم بھی عشاق کی صفوں میں فدائیت و للہیت، تقوی و طہارت کے ساتھ جلوہ گر ہوسکیں۔
0 تبصرے