Advertisement

مکتب کی اہمیت اور ضرورت

افادات: حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم
🖊️..... مولانا محمد داود میمن، سورتی۔

آج مؤرخہ ۲/ ذوالحجہ ۱۴۴۳؁ھ مطابق ۲/ جولائی ۲۰۲۲؁ء بہ روز شنبہ دوپہر ۴/ بجے  مسجد انوار، سورت میں مدرسہ رحمانیہ کے درمیان ملک و ملت کی ایک عظیم شخصیت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم تشریف لائے تھے۔ موقع کی مناسبت سے حضرت والانے شرعی رو سے مکتب کی اہمیت اور اس کی ضرورت اپنے نرالے اور اچھوتے انداز میں واضح فرمائی، اس پُر مغز خطاب کی کچھ جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں:
شرعی نقطۂ نظرسے تعلیم کے تین درجے ہیں :فرضِ عین،فرضِ کفایہ اور نفل۔

(۱) اتنی تعلیم جس کے ذریعے دینی ضروریات اور ایمانی تقاضے پورے ہوں، وہ  فرض عین ہے۔مثلاً: مکتب کی بنیادی دینی تعلیم جس سے ایمان ، نماز اور دین کی حفاظت کر سکیں، وہ فرضِ عین ہے، اس لیے کہ’’ طلب العلم فریضۃ‘‘ میں الف لام عہد کا ہے۔علم کا طلب کرنا ہر ایک کے لیے ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ مکتب کی تعلیم فرضِ عین ہے۔ اگر یہ نہ حاصل کی تو کلمہ، نماز وغیرہ نہ سیکھ سکیں گے۔ 

(۲) اتنی تعلیم جو ہر ایک کے لیے نہیں؛ بلکہ ایک خاص گروہ کے لیے ضروری ہو، وہ فرضِ کفایہ ہے۔مثلاً:ایک محلے میں پانچ افراد کا عالم ہونا ضروری ہے، ان سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے، اگر وہاں پچاس آدمی عالم ہوں تو بقیہ پینتالیس فرضِ کفایہ کے طور پر ہوںگے ۔ 

(۳)ان دونوں سے اعلیٰ درجے کی تعلیم نفل ہے۔ جیسے: معاشرے میں ایسے مفتی کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے پیچیدہ مسائل اور شکوک و شبہات دور کر سکیں۔ یہ نفل ہے۔
مکتب کی تعلیم دینی تعلیم کے تمام شعبوں میں سب سے زیادہ اہم ہے۔لیکن آج کل لوگوں کا مزاج ہے کہ ان میں مکتب کی تعلیم کے نظام کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ لہٰذا اس کی طرف مکمل طو رپر توجہ کی ضرورت ہے۔ 
اس سلسلے میں حکمت اور مصلحت کا پہلویہ ہے کہ اِس وقت گمراہی کے دو راستے پائے جاتے ہیں: جہالت اور تعلیم۔ ان دونوں راستوں سے گمراہی روز بہ روز پھیل رہی ہے ۔

جہالت: بہت سارے مسلمانوں نے دین پڑھا ہی نہیں، امت کا بہت بڑا طبقہ بنیادی دینی تعلیم سے واقف ہی نہیں۔ اس کی کئی مثالیں ہیں : حیدرآباد کی ایک اسکول کا سروے کیا گیا تو اس میں ۹۰ / فی صد بچے ایسے پائے گئے، جنہوں نے سِرے سے مکتب کی تعلیم حاصل ہی نہیں کی۔ 

تعلیم :تعلیم کے ذریعے بےدینی اس طرح آتی ہے کہ بچوں کا ایسا ذہن بنایا جاتا ہے کہ وہ اسلام سے ذہنی طور پر منحرف ہو جاتےہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کل الحاد کی بیماری مسلمانوں میں عام ہو رہی ہے،شرک کا راستہ کھل رہا ہے، کبھی اسکولوں میں یوگا اور سوریا نمسکار کروایا جاتا ہے، کبھی کچھ …تو کبھی کچھ… کچھ نہیں تو اُن کے معبود کا مجسمہ سامنے رکھ دیا جاتا ہے،اور ان کے اَوصاف و کمالات بیان کیے جاتے ہیں،اور مسلمان بادشاہوں کا ایسا غلط تصور پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قتل و غارت گری کی ، فتنہ و فساد کیا ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تعلیم کے راستے سے انحراف ہے۔ 

بالخصوص ہماری نیو ایجوکیشن پالیسی (New Education Policy)کی بنیاد یہی ہے۔اِسی لیے انہوں نے اپنے نصاب سے حضورﷺ کا تذکرہ نکال دیا، اورہندو کلچر کو شامل کر دیا، بہت سی جگہوں پر گیتا کو داخل کر دیا گیا۔ گویا اِس طرح ہمارے بچوں کے ذہن سے توحید کا یقین ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اُنہیں ہنود کی تاریخ اِس طرح پڑھائی جاتی ہے کہ ہماری تاریخ پڑھ کرمسلمانوں کے بچوں کو شرم آنے لگے اور غیروں کی تاریخ پر رشک آنے لگے۔
اگر اس کا کوئی مداوا ہے تو ’’مکتب کی تعلیم‘‘ ہے۔ 
امسال پورے ہندوستان کی رپورٹ کے مطابق مدرسوں کی طرف طلبہ کا رجوع کم ہو گیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ہم تمام بچوں کو مدرسے میں نہیں پڑھا سکتے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ بچوں پر تعلیم کا دروازہ بند کردیں، اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اتنے بڑے ملک میں مسلم مینجمنٹ قائم ہو سکے ۔ اس لیے آج ضرورت ہے کہ ہر مدرسے اور مسجد کے تحت ایک اسکول ہونا چاہیے۔
الغرض ! ایمان کو بچانے والا ایک نظام مکتب ہے۔ 
اور دوسرا نظام اسلامی اسکول کا قیام ہے۔ لہٰذا ہر سطح اورمعیار کا اسکول قائم ہونا چاہیے، جس میں تعلیم عصری ہو اور ماحول دینی اور اسلامی ہو۔ اس لیے کہ تعلیم کا کوئی بدل نہیں، اور یہ ایسی چیز ہے جس کے بغیر چارۂ کار نہیں۔ویسے تبلیغی جماعت کا نظام عمدہ ہے کہ جس کے ذریعے ہر گھر اور ہر فرد تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے،لیکن وہ تعلیم کا بدل نہیں، اس سے لوگوں میں دین کی رغبت تو پیدا ہوگی، لیکن دین کے حصول کے لیے دینی درس گاہوں کا رُخ کرنا ہوگا۔ لہٰذا اسلامی اسکول کا قیام ضروری ہے۔ 
اس لیے وہ تجار جو سرمایہ انویسٹ کرتے ہیں ، اُن سے درخواست ہے کہ اسکول میں انویسٹ کریں۔آج کل لوگ ہسپتال کی جگہ اسکول قائم کر رہے ہیں۔ 
آج کل نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ، دیکھیے! ابھی حجاب، یوگا اور وندے ماترم کا مسئلہ اٹھا، ہمیں یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ ہمارے احتجاج کی وجہ سے حکومت لازم کر دےگی، بلکہ ہمیں متبادل رکھنا چاہیے۔ لیکن اسکولوں کے باوجود مکتب کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ اِس وقت ہماری نسلوں کی حفاظت ان ہی دو چیزوں میں منحصر رہ گئی ہے۔ اگر مکتب کا نظام کمزور ہو گیا تو مدرسوں کو بھی بچے ملنے مشکل ہو جائیں گے۔
مکتب کے نظام کو مزید کیسے بہتر بنائیں؟ 
تعلیم اور ہر کام کا کمال یہ ہے کہ اس میں ہمارا منہج ایسا ہونا چاہیے کہ بچے اُس کو ڈر کر نہیں ،بلکہ شوق سے حاصل کریں۔ اس کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے:

(۱) ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ مکتب کا نظام اتنا پُر کشش ہو کہ ہمارے بچے شوق سے پڑھنے آئیں ، اِس کے لیے جو وسائل کار آمد ہوں ،وہ اختیار کریں۔ اب دنیا کے مختلف ممالک میں یہ نظام پایا جاتا ہے، کناڈا میں بھی اس کا اچھا نظام ہے، وہ لوگ اتوار کا دن فارغ کر کے مختلف ایسے امور انجام دیتے ہیں ، جن میں بچوں کی دل چسپی کا سامان ہوتا ہے۔ ہم بھی ایک دن مثلاً اتوار کا دن طے کریں کہ ان کے لیے دل چسپی کا سامان ہو،مثلاً کویز وغیرہ۔۔ 
ایک بات مزید یہ ہے کہ مکتب کے لیے اجتماعی نظام بھی بہت مؤثر ثابت ہوتا ہے، اس سے کمزور بچوں کو مدد ملتی ہے، اس کے لیے ٹریننگ کا نظام ہونا چاہیے، اور اس میں جدید ماہرین کا تجربہ حاصل کرنا چاہیے۔ ہر سال مکاتب کے اساتذہ کے لیے ٹریننگ بورڈ ہونا چاہیے۔ اس سے تعلیمی نظام بہتر ہو سکتا ہے۔

(۲) پہلے دور میں تربیت کا غلبہ تھا، ہمارے دور میں تعلیم کا اسلوب بڑھ گیا اور تربیت کا اسلوب ختم ہو گیا۔نتیجۃً جو برائیاں باہر نہیں ہوتیں وہ برائیاں اسکولوں اور کالجوں میں ہوتی ہیں، یہ تربیت کا فقدان ہے۔ مکاتب کے نظام میں تربیت کی بڑی اہمیت ہے۔ اور تربیت کا مطلب صرف یہ نہیں کہ بچوں کو روز مرّہ کی دعائیں وغیرہ سکھا دی جائیں، بیشک ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے، لیکن یہ تربیت کا ایک حصہ ہے، مکمل تربیت نہیں، آج کے ماحول میں فکری تربیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔
مثلاً: بچوں کو کھانے کی دعا پڑھانے سے قبل اس کو سمجھائیں کہ کھانا کس نے پیدا کیا…؟ ہم نے پیدا کیا ہے…؟ وغیرہ… وغیرہ… یہ ساری نعمتیں تم کو اللہ کی طرف سے مل رہی ہیں، لہٰذا اُس اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اِس لیے کھانے کے شروع اور بعد میں دعا رکھی گئی ہے۔ یہ چیزیں ہمیشہ ذہن میں راسخ رہیں گی۔ 
ہم نے کلمہ سکھایا ، تو اس کے معنیٰ بھی سمجھائیں، اللہ کی توحید بھی سمجھائیں،اس طرح ان کی سوچ اور فکر بنائی جائے۔
اسی طرح ہفتہ واری پروگرام میں اُن کی سمجھ اور ذہنی سطح کے لحاظ سے اسلام پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں، وہ سمجھائیں۔ مثلاً: قربانی کے موقع سے…گوشت بھینس کھاتی ہے؟ نہیں! وہ ہضم نہیں کر پائے گی، لیکن اللہ ہمیں کھلا رہے ہیں، معلوم ہوا گوشت کو اللہ نے انسان کے لیے غذا کے طور پرپیدا کیا ہے۔اگر کل کو کسی نے اعتراض کر دیا تو وہ اس کا جواب دےگا۔ 

الغرض! طلبہ کے لیے اساتذہ کی تربیت اور مسابقتی پروگرام بھی بہت ضروری ہیں، تربیت میں ہماری تاریخ بھی شامل ہے۔ مثلاً: کسی بڑے سڑک پر لے گئے، اور سوال کیا کہ  اس کو کس نے بنایا ہے؟ یہ ہمارے فلاںمسلم حکمراں نے بنائی ہے۔
مسجد میں کارپیٹ دیکھا، تو اس کے بارے میں سوال کر دیا کہ یہ کس نے بنایا ہے ؟ یہ سید علی ہمدانی نے ایران سےبر آمد کیا ہے۔
نیز ملک کی سب سے خوب صورت عمارت کے بارے میں سوال کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بڑی حقیقتیں سمجھا سکتے ہیں۔
اس وقت اگلی نسلوں کی ایمان کی حفاظت ان ہی دو چیزوں کی وجہ سے ہے۔
نیز اسکول بھی ہمارے ایسے ہوں کہ اُن میں مکتب ہوں یا مکتب کی تعلیمات شامل ہوں، اس لیے کہ آج کل اس پر بڑی یلغار ہے۔
 اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق و سعادت عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے