Advertisement

حدیث کے طلبہ کے لیے ضروری ہدایت



”ہر حدیث پڑھنے والے کو سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اس حدیث کے متعلق ائمہ کیا کہتے ہیں اور ان کا مذہب کیاہے؟ یہ بات ترمذی سے معلوم ہوگی۔ اس کے بعد جب مذہب معلوم ہوگیا تو اب ضرورت ہے کہ اس کی دلیل معلوم ہو، وہ وظیفہ ابوداؤد کا ہے۔ اس کے بعد اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ مسئلہ کیسے مستنبط ہوا؟ یہ وظیفہ بخاری کا ہے کہ وہ استنباطِ مسائل کا طریقہ دکھلاتے ہیں اور بتلاتے ہیں۔ اس کے بعد جب احادیث سے مسائل مستنبط ہوگئے اور دلائل سامنے آگئے تو ان دلائل کی تقویت کے لیے اسی مضمون کی دوسری حدیث کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یہ کمی امام مسلم، پوری کرتے ہیں، اب آدمی مولوی ہوجاتا ہے۔ اب اس کے بعد اس کو محقق بننے کی ضرورت ہوتی ہے؛ تاکہ یہ معلوم کرے کہ یہ حدیث جو مستدل بن رہی ہے، اس کے اندر کوئی علت تو نہیں، اس کا تعلق نسائی سے ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ایک مستقل بصیرت حاصل ہوجاتی ہے، اب اس کو چاہیے کہ وہ احادیث پر غور کرے اور خود دیکھے کہ اس حدیث کے اندر کوئی علت تو نہیں؛ کیوں کہ نسائی شریف کے اندر تو خود امام نسائی، ساتھ دے رہے تھے اور بتلاتے جاتے تھے کہ اس حدیث میں یہ علت ہے؛ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر کسی کے مطلع کیے ہوئے خود احادیث کو پرکھے اور علل کو تلاش کرے، اس کے اندر معین ابن ماجہ ہے؛ کیوں کہ اس میں احادیث گڈمڈ ہیں اور کسی کے متعلق یہ نہیں بتلایاگیا ہے کہ اس حدیث کا درجہ کیا ہے، انہی اغراض کے پیش نظر ہمارے اکابر نے مذکورہ بالا ترتیب قائم فرمائی تھی“ (سراج القاری، ج۱، مقدمہ الکتاب،ص٥۳)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے