دنیائے حدیث میں شیخ الإسلام،مولانا مفتي محمد تقي عثماني دامت برکاتہم العالية کا بلند مقام و مرتبہ!
فیس بک پر شيخ علامة إمام ناصر الدين ألباني رحمه الله رحمة واسعة پر حدیث کی تصحیح و تضعیف کے باب میں مکمل طور اعتبار نہ کرنے پر شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی صاحب مد ظلہ کی ایک رائے چل رہی ہے،جس پر حلقۂ اہلِ حدیث کے ایک بھائی کہہ رہے ہیں کہ:
شیخ ألباني رحمہ اللہ پر حدیث کے باب میں رائے قائم کرنے کے لیے کم از کم حدیث کی فیلڈ میں اتنا مقام بھی چاہیے جتنا ہونا چاہیے۔
ان کے لیے عرض ہے کہ شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ جیسے دیگر علوم میں يدِ طولی رکھتے ہیں،وہی حدیث میں بھی وہ،وہ کام کر گئے جو 1400 سالہ تاریخ میں کوئی نہ کر سکا،مگر انہوں نے یہ سب 25 سالہ خاموشی سے کیا جس سے طلبا تو کیا علما بھی لاعلم رہے۔
یہ تقی صاحب کی، "المدونة الجامعة للاحاديث المروية عن النبي الكريم صلى الله عليه و آله و أصحابه و بارك و سلم!" ہے، اس کے بارے تعارف لکھنے لگا ہوں وہ پڑھیے سر دھنتے رہیے اور پھر سوچیے کہ اس فیلڈ میں تقی صاحب کسی اپنے "معاصر محدث" کے بارے رائے قائم کر سکتے ہیں یا نہیں؟؟!!
پوسٹ میں زیرِ نظر ’’المدونة الجامعة للأحادیث المرویة عن النبي الکریم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ مفتی تقی عثمانی صاحب کی حدیث پر وہ عظیم شاہ کار ہے جس کا مجموعہ تقریبا چالیس جلدوں پر مشتمل ہوگا، ابھی اس کی پندرہ (15) یا اس سے کچھ جلدیں منظرِ عام پر آ کر اوساطِ علمیہ میں بلند مقام پا کر ان سے خراجِ تحسین وصول کر چکی ہیں۔
یہ وہ کام ہے جو حکومتوں کی سرپرستی میں بڑی بڑی اکیڈمیز کے ذریعے انجام دیا جانا تھا،وہ ایک دینی مدرسے کے معمولی شعبے میں چند افراد مل کر کر رہے ہیں،بلاشبہ یہ بھی حدیث نبوی کا اعجاز ہی کہلائے گا کہ آج بھی اہلِ علم حدیث کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں اور اسے عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اس مجموعہ کے تعارفی مضمون میں لکھا ہے کہ:
آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے ان کے ایک دوست نے یہ تجویز پیش کی کہ کسی طرح تمام احادیث پر ایسے نمبر پڑ جائیں جو عالمی سطح پر مسلّم ہوں،اس وقت اگر کسی حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے تو جس کتاب میں وہ حدیث موجود ہے یا تو اس کے صفحہ نمبر کا حوالہ دیا جاتا ہے یا اس کتاب اور باب کا ذکر کر دیا جاتا ہے جس میں وہ حدیث بیان کی گئی ہے، بعض کتابوں میں احادیث پر نمبر بھی ڈال دیے گئے ہیں، کبھی حوالے کے لیے وہ نمبر لکھ دیے جاتے ہیں، بسا اوقات وہ حوالہ حدیث نکالنے کے لیے کافی نہیں ہوتا، پھر احادیث کی تخریج کے وقت بہت سی کتابوں کا ذکر کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود کچھ کتابیں چھوٹ جاتی ہیں۔
ان صاحب کی تجویز یہ تھی کہ بلا تشبیہ جس طرح قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دینے کے لیے سورت نمبر اور آیت نمبر کا حوالہ دے دینا کافی ہوتا ہے اور یہ نمبر نسخوں کے اختلاف سے بدلتا نہیں ہے، اسی طرح کسی حدیث کا حوالہ دینے کے لیے صرف حدیث کا نمبر ذکر کر دینے سے اس حدیث کی تمام تفصیلات یکجا دستیاب ہو جائیں تو یہ بڑا کام ہوگا۔
اس تجویز پر غور کرنے کے لیے ۵/ اور ۷/ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ کو مکہ مکرمہ میں ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کے علاوہ:
1۔ان کے برادر اکبر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی،
2۔ ڈاکٹر مصطفی اعظمی،
3۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی،
4۔ ڈاکٹر عبد الملک بن بکر القاضی،
5۔ شیخ محمد الطحّان، ڈاکٹر عبد الستار ابوغدہ،
6۔ اور شیخ نظام یعقوبی
جیسے اہلِ علم اور اربابِ فضل و کمال شریک ہوئے اور اس کام کا خاکہ تیار کیا گیا اور منہج طے کیا گیا،ان حضرات نے یہ بھی طے کیا کہ یہ عظیم کام جامعہ دار العلوم کراچی میں ہو، اور مولانا محمد تقی عثمانی اس کام کی نگرانی کریں،اس طرح جامعہ دار العلوم کراچی میں ’’قسم موسوعۃ الحدیث‘‘ کے نام سے ایک مستقل شعبے کا قیام عمل میں آیا،جامعہ دار العلوم کراچی کے چند فضلا کی خدمات حاصل کی گئیں اور مولانا نعیم اشرف صاحب کو اس شعبے کا ناظم مقرر کیا گیا۔
کام کا یہ طریقۂ کار طے کیا گیا تھا کہ حدیث کی ان کتابوں سے جو متداول ہیں اور جن کا حوالہ بہ کثرت دیا جاتا ہے تمام احادیث ان کے جملہ طرق سے لے لی جائیں، یہ کُل اسّی کتابیں ہیں، ان کے مؤلفین نے تمام روایتیں اپنی سند سے ذکر کی ہیں اور احادیث کا بیشتر ذخیرہ ان ہی کتابوں میں پایا جاتا ہے، ان اسّی (80) کتابوں کے علاوہ بھی حدیث کی بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن کے مؤلفین اپنی سند سے حدیث بیان کرتے ہیں، اگرچہ ان کا زیادہ حوالہ نہیں دیا جاتا، مگر ان میں بھی حدیث کا بڑا ذخیرہ ملتا ہے، ایسی کتابوں کی تعداد سات سو انیس (719) تک پہنچتی ہے، ان کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے ان سے وہ احادیث الگ کر لی جائیں جو سابقہ اسّی(80) کتابوں میں موجود نہیں ہیں، مختلف طرق کے متون میں اگر کوئی اہم اختلاف ہو تو اس کو بھی ذکر کر دیا جائے،اور ان کی اسنادی حیثیت کے متعلق اگر متقدمین کی کوئی رائے کہیں مذکور ہو تو اس کو بھی حدیث کے ساتھ بیان کر دیا جائے،اس طرح کل سات سو ننانوے (799) کتابیں ہوئیں، جن میں سے اکثر مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں اور کچھ کے مخطوطے ہیں،احادیث کے تتبع اور تلاش کے دوران کچھ ایسی احادیث بھی سامنے آئیں جو ان کتابوں میں نہیں تھیں، مگر حدیث و تفسیر کی شروح میں ان کا ذکر ملتا ہے،سو کام کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے ان کتابوں کو بھی شامل کیا گیا،ایسی کتابوں کی تعداد ایک سو گیارہ (111) تھی، اس طرح کل نو سو دس (910) کتابوں کو سامنے رکھ کر کام کا آغاز کیا گیا۔
حدیث کی جمع و ترتیب کے دوران یہ سوال بھی سامنے آیا کہ احادیث کا مجموعہ حروف تہجی کی ترتیب سے تیار کیا جائے یا ابواب کی ترتیب پر؟
کافی غور و خوض کے بعد یہ طے ہوا کہ ابواب کی ترتیب ہی مناسب رہے گی،کیوں کہ احادیث اور خاص طور پر فعلی احادیث کے مختلف طرق کے متن چونکہ مختلف ہوتے ہیں، اس لیے حروف تہجی کی ترتیب مفید نہیں ہوگی،بلکہ ان کے لیے ابواب کا مروّج طریقہ ہی مفید و موزوں رہے گا۔
چنانچہ ابواب قائم کیے گئے اور ہر باب کے تحت احادیث جمع کی گئیں،ہر حدیث کے تمام طرق اور مختلف طرق سے مروی تمام متن ایک ہی جگہ ذکر کرنے کا اہتمام کیا گیا، البتہ یہ رعایت کی گئی کہ ابواب قائم کرنے میں کسی فقہی یا کلامی مذہب کی کوئی چھاپ نہ ہو،حدیث کی تخریج میں یہ اصول اپنایا گیا اور پوری کتاب میں اسی اصول کا تتبع کیا گیا کہ جو حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ مضبوط اور قابل اعتماد ہو اس کو ’’حدیثِ مختار‘‘ قرار دے کر پہلے ذکر کیا جائے، اسی طرح وہ حدیث اگر کسی طریق میں سب سے زیادہ جامع سیاق میں آئی ہو اس کو "الطریق الأجمع" کے عنوان سے سند کے ساتھ نقل کیا جائے، پھر جس صحابی سے وہ حدیث مروی ہے، اس کی روایات کے تمام طرق جس حدیث کی کتاب میں بھی آئے ہوں، ان سب کو ذکر کیا جائے، اگر ان میں الفاظ کا کوئی اہم اختلاف ہو تو اسے بھی بیان کر دیا جائے، اس کے بعد اس ’’حدیثِ مختار‘‘ کو ایک عالمی نمبر دے دیا جائے، بعض اوقات ایک ہی حدیث ایک سے زیادہ صحابہ سے مروی ہوتی ہے، ایسی تمام روایات کو بھی جمع کرنے کا اہتمام کیا جائے اور اُن کو بہ طورِ شواہد ذکر کر کے ان کو فرعی نمبر دے دئے جائیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے تعارفی مضمون میں کام کی نوعیت پر روشنی بھی ڈالی ہے، اور اس کو ایک مثال سے واضح بھی کیا ہے، جس سے کام کی نوعیت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت اور افادیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔
کتاب کا پہلا باب ایمانیات پر مشتمل ہے اور اس باب میں جو حدیث سب سے پہلے لائی گئی ہے وہ مشہور حدیث: "إنما الأعمال بالنیات" ہے۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں سیدنا عمرؓ سے مروی ہے اور اس کو حدیث کا سب سے صحیح طریق قرار دیا جاتا ہے، چنانچہ اس کو ’’حدیثِ مختار‘‘ قرار دے کر سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، پھر اس کے جتنے طرق صحیح بخاری اور دوسری کتابوں میں موجود ہیں ان کو اکٹھا کیا گیا ہے، اور اگر کہیں لفظ کا کوئی اختلاف ہے اس کو بھی ذکر کردیا گیا ہے، اس حدیث کو نمبر (1) دیا گیا ہے، اور اس کے باقی تمام طرق کو بھی نمبر 1 ہی دیا گیا ہے، البتہ نیچے فرعی نمبر بھی دے دیے گئے ہیں، چنانچہ یہ حدیث امام ابو نعیم نے حلیۃ الأولیاء میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے اس کو 1/1 نمبر دیا گیا ہے، پھر یہ حدیث طبرانی کی "معجمِ کبیر" میں حضرت ابو الدرداءؓ سے منقول ہے اسے 2/1 نمبر دیا گیا ہے، ابنِ عساکر کی "تاریخِ دمشق" میں یہ روایت حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے، اس کو 3/1 نمبر دیا گیا ہے، یہ حدیث بخاری کے علاوہ سات کتابوں میں ہے اور ان سب کو الگ الگ فرعی نمبر دئے گئے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو حدیث جتنے دستیاب مصادر میں جہاں کہیں مروی ہے وہ اس مدوّنہ میں صرف نمبر کے حوالے سے اپنے تمام طرق اور تمام مختلف اور مشترک متون کے ساتھ دستیاب ہو جائے گی، اب تک سترہ ہزار دو سو بانوے (۱۷۲۹۲) احادیث پر کام ہو چکا ہے، ان کے بیس ہزار (20,000) سے کام ہوا ہے اور شواہد بھی جمع کیے جا چکے ہیں۔
ان کے مختلف طرق کی مجموعی تعداد تین لاکھ اڑتیس ہزار آٹھ سو سینتس (338837) ہے،یہ کام مسلسل جاری ہے،احادیث اور طرق احادیث میں بھی برابر اضافہ ہو رہا ہے، ابھی تک اس کی پہلی 15 (یا کچھ زیادہ) جلدیں منظرِ عام پر آئی ہیں جو ذیل میں نظر آ رہی ہیں۔
پہلی جلد کتاب الایمان پر مشتمل ہے، جس میں چار سو تینتالیس (443) ’’حدیثِ مختار‘‘ اور پانچ سو سات (507) شواہد اور نو ہزار دو سو چھیاسی (9286) طرق جمع کیے گئے ہیں،یہ جلدیں بیروت کے اشاعتی ادارے دار القلم نے نہایت اعلی معیار کے ساتھ شائع کی ہیں، باقی جلدیں بھی ممکنہ تیز رفتاری کے ساتھ شائع ہونے والی ہیں۔
کام کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اور جس نہج سے یہ کام ہو رہا ہے، بہ ظاہر وہ بہت محنت طلب معلوم ہوتا ہے، سینکڑوں کتابوں کے لاکھوں صفحات پڑھ کر حدیث تلاش کرنا، پھر اس کے شواہد جمع کرنا، پھر اس حدیث کے مختلف طریقوں کو ڈھونڈنا، پھر متون کے اختلاف کو دیکھنا، یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے!
لہذا!
شیخ الاسلام مولانا مفتی محمود تقی عثمانی صاحب مد ظلہ کوئی طفلِ مکتب نہیں بلکہ "انزل الناس منازلهم!" کی رعایت رکھتے ہوئے انصاف کا معاملہ کیجیے،یہ سب ہمارے ہی علماء ہیں چاہے شیخ البانی ہوں یا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب یا دیگر اہلِ حق علماء کرام ہوں۔
تحریر مع التصرف: سریر احمد
0 تبصرے