شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیخ عبد الاحد ازہری جو مصر کے بہت اچھے فقیہ ہیں، میرے مہمان ہوئے، ایک مجلس میں آپ نے حاضرین کے سامنے بہت ہی عمدہ انداز میں تلاوت کی، پھر گفتگو کا دور شروع ہوا،بات نکلی کہ قرآن نازل ہوا عرب میں پڑھا گیا مصر میں اور سمجھا گیا ہند میں، اس پر انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں حاضر تھا، کچھ محبت رکھنے والے علماء نے مجھے مسند پر بٹھا دیا اور کہا ہمیں کچھ نصیحت کریں ، بعدنصیحت کے سوال جواب کا دور شروع ہوا،کسی نے پوچھا :
"استاذ کا رتبہ بڑا یا والدین کا؟
میں نے کہا کہ :
"بعض حضرات نے لکھا ہے کہ استاذ کا درجہ بڑا ہوتا ہے کیوں کہ والدین بچے کو نیچے (دنيا میں) لانے کو محنت کرتے ہیں اور استاذ بچےکو نیچے ( دنیا) سے اوپر لے جانے کے لئے محنت کرتا ہے
اس جواب پر ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے کہا کہ :
"مجھے آپ کا جواب سمجھ میں نہیں آیا".
میں نے کہا :
"آپ کچھ سمجھا دیں".
اس نے کہا کہ :
" صحابہ کے دور سے یہ ترتیب چلی آ رہی ہے۔(غالبا حضرت معاذ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک گفتگو کی طرف اشارہ فرمایا) کہ پہلے کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ،پھر عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پھر اخیر میں قیاس ہے اور آپ نے پہلے ہی قیاس کو اٹھایا حالانکہ والدین کا رتبہ منصوص علیہ ہے اور آپ نے جو دلیل پیش کی وہ قیاس ہے جب نص کسی چیز کی فضیلت میں وارد ہوجائے وہ ہر حال میں افضل ہی رہتی ہے تا آنکہ کوئی دوسری نص اس کے خلاف وارد ہو جائے".میں نے اپنا سر پکڑ لیا کہ واقعی اتنی زبردست چوک مجھ سے کیسے ہوگئی جب کہ اصول میں یہ بات ہے کہ کسی چیز کی فضیلت ،یا کسی چیز کے ثواب و عقاب کو ثابت کرنے کے لئے نص قطعی الثبوت چاہیئے یا ایسا مضبوط بالسند المتصل قول نبی چاہیئے جو اس فضلت یا ثواب وعقاب کے معاملہ میں صریح ہومیں نے کہا :
"واقعی میں غلطی پر تھا کچھ اور فرمائیں"۔
کہا کہ :
"ایک باندی تھی ابو لہب کی آزاد کردہ جن کا نام تھا "ثویبہ" جنہوں نے چند روز آپ علیہ السلام کو اپنا دودھ پلایا تھا، ایک مرتبہ تشریف لائیں، تو آپ نے اپنی دستار مبارک ان کے راستہ میں بچھا دی، یہ درجہ دیا اس ذات کو جس نے چند روز دودھ پلایا تو جنم دینے والی کا کیا حق ہوگا؟ اور دوسری طرف حضرت جبرئیل علیہ السلام جو من وجہ آپ کے استاذ تھے، ان کی آمد پر اس قسم کی تکریم ثابت نہیں".
میں نے کہا :
آپ کے جواب سے اطمینان ہوا، کلام الہی اور عمل نبی کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں"۔
پھر وہ اٹھ کرچل دیئے، میں نے کہا :
"شاید کوئی فقیہ ہیں".
اھل مجلس نے کہا کہ :
"یہ ہندوستان کے ادارہ دارالعلوم دیوبند کےاستاذ حدیث مفتی سعید احمد پالنپوری ہیں". (مجالسِ عثمانی).
0 تبصرے